ہم بچپن کی یادیں زور لگا کر بھی یاد کیوں نہیں کرپاتے؟ نئی تحقیق میں اہم انکشافات
اکثر آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ ہمیں اپنی ابتدائی زندگی میں بتائے لمحات یاد نہیں آپاتے، جب ہم دو چار مہینے کے تھے یا ایک سال کے تھے تو ہمارے ساتھ کیا ہوا؟ ہمیں یاد نہیں رہتا۔ لیکن سائنس کی اس کی وجہ بتا دی ہے۔
سائنسی جریدے ”سائنس“ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق، ”انفنٹائل ایمینیزیا“ (Infantile Amnesia) یعنی بچپن کی یادوں کا مٹ جانا زیادہ تر یادداشت کی حصولی میں ناکامی کی وجہ سے ہوتا ہے، نہ کہ یادداشت کے سرے سے نہ بننے کی وجہ سے۔
بچپن کی یادداشت: ایک پراسرار معمہ
ابتدائی زندگی سیکھنے کے عمل کا تیز ترین دورانیہ ہوتا ہے، لیکن اس کے باوجود اکثر افراد کو تین سال کی عمر سے پہلے کی کوئی یادداشت نہیں رہتی۔ سائنس دان کئی دہائیوں سے اس معمے کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کیوں شیرخوار بچے اپنی ابتدائی یادیں برقرار نہیں رکھ سکتے۔
اس نئی تحقیق میں فنکشنل میگنیٹک ریزوننس امیجنگ (fMRI) کے ذریعے جاگتے ہوئے بچوں کے دماغ کی سرگرمی کو ریکارڈ کیا گیا، جب وہ ایک یادداشت کے تجربے میں شامل تھے۔ نتائج سے پتہ چلا کہ اگرچہ بچے یادداشت کو محفوظ کر سکتے ہیں، لیکن ان کے دماغ میں یادداشت کو بازیافت کرنے کا نظام مکمل طور پر نشوونما نہیں پاتا، جس کی وجہ سے ابتدائی یادیں ضائع ہو جاتی ہیں۔
حیاتیاتی نظام اور یادداشت کا عمل
تحقیق کے مطابق، انسانی دماغ کا ”ہپوکیمپس“ (Hippocampus) نامی حصہ ایپی سوڈک میموری (episodic memory) یعنی زندگی کے واقعات اور تجربات کو محفوظ کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ نومولود بچوں میں ہپوکیمپس اگرچہ یادداشت کے اندراج میں متحرک ہوتا ہے، لیکن یہ مکمل طور پر ترقی یافتہ نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے بچپن کی یادیں ضائع ہو جاتی ہیں۔
تحقیق میں شامل تجربات اور چیلنجز
اس تحقیق میں 26 بچوں کو شامل کیا گیا، جن میں سے نصف ایک سال سے کم عمر کے اور نصف ایک سال سے زائد عمر کے تھے۔ سائنس دانوں کو سب سے بڑا چیلنج بچوں کو fMRI مشین میں سکون سے رکھنا تھا، کیونکہ شیرخوار بچے عام طور پر بے چین اور غیر متعاون ہوتے ہیں۔
ییل یونیورسٹی کے پروفیسر اور تحقیق کے مرکزی مصنف نک ترک-براون نے بتایا کہ ’ہم نے بچوں کو زیادہ سے زیادہ ساکن رکھنے کے لیے کئی تکنیکیں استعمال کیں، جیسے کہ فیملیز کے ساتھ مل کر بچوں کو چوسنی، کمبل اور کھلونے دینا، تکیوں کے ذریعے سہارا دینا اور ان کی توجہ برقرار رکھنے کے لیے رنگ برنگی روشنیوں کا استعمال کرنا‘۔
نتائج اور آئندہ تحقیق
تحقیق کے دوران، سائنس دانوں نے بچوں کے دماغ کی سرگرمی کا موازنہ اس وقت کیا جب وہ یادداشت کو محفوظ کر رہے تھے، اور اس وقت جب وہ محفوظ کی گئی یادداشت کو بھول چکے تھے۔ نتائج سے واضح ہوا کہ ہپوکیمپس بچپن میں ہی یادداشت کو محفوظ کرنے کے لیے متحرک ہوتا ہے، خاص طور پر ایک سال کی عمر کے بعد۔
پروفیسر ترک-براون نے کہا کہ ، ’ہماری تحقیق کے نتائج ثابت کرتے ہیں بچے تقریباً ایک سال کی عمر سے ہی ایپی سوڈک میموری کو ہپوکیمپس میں محفوظ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘
اب سائنس دان ایک نئی تحقیق پر کام کر رہے ہیں، جس میں دیکھا جائے گا کہ آیا شیرخوار بچے، نو عمری اور بچپن کے دوران وہ ویڈیوز پہچان سکتے ہیں جو ان کے نوزائیدہ ہونے کے دوران ان کے نقطۂ نظر سے ریکارڈ کی گئی تھیں۔
یہ تحقیق انسانی دماغ کی یادداشت کی کارکردگی اور ”انفنٹائل ایمینیزیا“ کی وجوہات کو سمجھنے کے لیے ایک اہم پیش رفت ثابت ہو سکتی ہے، جو آگے جا کر دماغی ترقی اور سیکھنے کے عمل کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہو گی۔