Aaj News

اتوار, مارچ 30, 2025  
29 Ramadan 1446  

جانوروں سے ’بات چیت‘ کی صلاحیت ، سائنسدان کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں؟

سائنسدانوں کا یہ پرانا خیال غلط ثابت ہو گیا کہ جانور اور پرندے اپنی بات سمجھانے کی صلاحیت نہیں رکھتے، تحقیق
شائع 23 مارچ 2025 03:02pm

کسی طوطے کے منہ سے نکلنے والا کوئی جملہ ہو، بلی کی میاؤں میاؤں یا کتے کی واؤ واؤ، مالک کے ذہن میں اس خیال کہ اس نے کیا کہا ہے، سے اگلا خیال یہ آتا ہے کہ کاش وہ بھی ڈاکٹر ڈولیٹل ہوتا یا ہوتی۔ وہ اس لیے کہ یہ افسانوی کردار جس پر ہالی وڈ میں فلم بھی بن چکی ہے، جانوروں کے ساتھ بات چیت کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔

سائنسدان بھی ایسی ’صلاحیت‘ حاصل کرنے کی کوششیں کرتے رہے ہیں اور اب تو اس کے لیے اے آئی کا استعمال بھی کیا جا رہا ہے۔ اس لیے ایسے سوالات کہ جانوروں کے ساتھ گپ شپ کا کوئی امکان ہے اور وہ کوششیں کس حد تک کامیاب رہیں؟ کا جواب ذیلی سطور میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔

مشہور انگریزی ویب سائٹ لسٹورس نے کئی دہائیوں تک ہونے والی ایسی کاوشوں پر رپورٹ شائع کی ہے۔

ڈاکٹر ارینے پیپربرگ نے 30 سال تک افریقہ کے ایک سرمئی طوطے کو بولنا اور اپنے جذبات کا اظہار کرنا سکھایا، جس سے سائنسدانوں کا یہ پرانا خیال غلط ثابت ہو گیا کہ جانور اور پرندے اپنی بات سمجھانے میں بہت سست ہوتے ہیں۔

اس طوطے نے سو سے زیادہ الفاظ سیکھے، وہ چیزوں کو پہچانتا تھا اور نام بھی جانتا تھا جبکہ گنتی بھی گن سکتا تھا۔

پیپر برگ نے الیکس کو ماڈل، ریول ٹیکنیک کے ذریعے تربیت دی۔ جس کے بعد طوطا نہ صرف الفاظ کی نقل کر کے بول پاتا تھا بلکہ اس کے معنی بھی سمجھتا تھا۔ وہ ملتی جلتی اشیا کے درمیان فرق بھی بتا سکتا تھا، جیسا کہ لوہے اور پلاسٹ کی چابی، اور وہ یہ بھی جانتا تھا وہ مختلف مواد سے بنی ہیں اور کس مقصد کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔

ڈاکٹر پیپربرگ کا کہنا ہے کہ ’جب الیکس مشق کے دوران بور ہو جاتا تو وہ جان بوجھ کر سوالوں کے غلط جواب دینا شروع کر دیتا۔

الیکس دنیا کی ریکارڈڈ تاریخ میں اس وقت پہلا پرندہ بن گیا جس نے آئینے میں خود کو دیکھنے کے بعد پوچھا ’یہ کونسا رنگ ہے۔

الیکس 2007 میں 31 سال کی عمر میں اچانک مر گیا جو کہ افریقی طوطے کی عمر کے لحاظ سے جوانی کا دور تھا۔

ڈاکٹر ارینے پیپربرگ کا کہنا ہے کہ آخری وقت میں اس نے تین جملے بولے، ’آپ اچھے رہیں، کل ملتے ہیں، آئی لو یو۔

بلی جانے آنکھوں کی زبان

انگلینڈ کے سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اگر کوئی بلیوں کے ساتھ بات چیت کرنا چاہتا ہے تو اس میں سب سے بڑا کردار پلکیں جھپکانے اور آنکھیں مٹکانے کا ہے۔

یونیورسٹی آف سسیکس کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بلی کے خاندان سے تعلق رکھنے والے تمام جانور آنکھوں کے اشارے کا گرمجوشی سے جواب دیتے ہیں۔

اگر بلی آنکھوں کے اشارے کے جواب میں یا پھر اس کے بغیر بی آنکھوں کو بڑا اور چھوٹا کر کے پلکیں جھپکاتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ آپ کو دوست سمجھ رہی ہے، تاہم اس کے انداز میں اگر گھورنا شامل ہو تو اس کا مطلب ناگواری ہو سکتا ہے۔

آنکھیں چندھیا کر بلی کو دیکھنے کے حوالے سے ہونے والی تحقیق میں سامنے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جب ایک میٹر کی دوری سے مالکان نے بلی کو دیکھ کر آںکھیں جھپکائیں تو اس کا ردعمل ایک سا ہی تھا تاہم جب ان ساننسدانوں جو ان بلیوں سے کبھی نہیں ملے تھے، نے یہی عمل دُہرایا ہے کہ تو ان کا ردعمل مختلف تھا۔ اسی طرح وہ اس اجنبی کے پاس بھی آ جاتی ہیں جو ان کی طرف دیکھ کر آہستہ سے آنکھیں جھپکتا ہے۔ اس تحقیق کے نگران پروفیسر کیرن میک کامب اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں ’یہ بلیوں کے ساتھ وابستگی کو بڑھانے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ بلی کو دیکھتے ہوئے آںکھوں کو دو سیکنڈ کے لیے ہلکا سا بند کریں۔ اس کے جواب میں بلی بھی ایسا ہی کرے گی اس کے بعد آپ ایک قسم کی بات چیت شروع کر سکتے ہیں۔

گھوڑوں کی زبان

2016 میں ناروے کے سائنسدانوں نے گھوڑوں کے ساتھ بات چیت کے لیے ایک طریقہ کار ڈھونڈا اور وہ مختلف چیزوں کی مدد سے انسانوں کو اپنا پیغام دیتے ہیں۔

وہاں 23 گھوڑوں کو دو ہفتے تک 10 سے 15 منٹ تک تربیت دی گئی، جن میں مختلف نسلیں شامل تھیں اور ان کو ایک تختے کے سامنے جس پر ’آئی‘ لکھا تھا، کھانا دیا جاتا تھا، جبکہ گرمی کے وقت اصطبل پر ترپال ڈالتے وقت ایک اور تختے کے قریب لے جایا جاتا جس پر کوئی اور حرف لکھا ہوتا، اسی طرح ان کی توجہ ایک اور تختے کی طرف اس وقت دلائی جاتی جب ترپال کو اتارا جاتا ہے۔

اس مشق کے کچھ روز بعد جب گھروں کو بھوک لگتی تو وہ ’آئی‘ والے تختے کے پاس جاتے اور جب گرمی لگتی تو ترپال ہٹانے کے لیے اسی تختے سے دھیرے دھیرے سر ٹکراتے جو ان کو ترپال اتارتے وقت دکھایا جاتا تھا جبکہ سردی لگنے پر اس تختے کے پاس جمع ہوتے جو ترپال ڈالتے وقت دکھایا جاتا تھا۔

چڑیوں کا قدرتی تعاون

موزمبیق کے دیہاتی علاقوں میں رہنے والے لوگ جن کو یاؤ کہا جاتا ہے، جنگلی پرندوں کے ساتھ ایک متاثرکن رشتہ رکھتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ وہ آپس میں بات چیت کر رہے ہیں۔ ان پرندوں کو شہد تلاش کرنے اور نکالنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

دو قسم کے ننھی چڑیاں اپنی مخصوص آواز نکال کر اور چہچہا کر باقاعدہ مقامی لوگوں کو جواب دیتی ہیں۔

یہ مقامی لوگوں کو ان مقامات تک لے جانے میں رہنمائی کرتی ہیں جہاں شہد کے چھتے لگے ہوں کیونکہ اکثر درختوں میں چھپے ہوئے ہوتے ہیں۔

اس کے بعد لوگ دھونی دے کر اور دوسرے طریقوں سے شہد نکالتے ہیں جبکہ اس دوران ان ننھی چڑیوں کی بھی میٹھے سے تواضع کی جاتی ہے۔

قدیم دور سے چلا آنے والا یہ سلسلہ 2016 میں سامنے آیا اور اس پر تحقیق کی گئی، تاہم محققین اس امر پر حیران ہیں کہ جب ان پرندوں کو باقاعدہ طور پر تربیت نہیں دی گئی تو پھر کیسے وہ یہ کام اتنے اچھے طریقے سے انجام دیتے ہیں اور انہوں نے اسکو ایک ’قدرتی تعاون‘ قرار دیا ہے۔

کینگروز کا انداز

سڈنی اور لندن کی ٹیمز نے دوران تحقیق اس بات کا اندازہ لگایا کہ کینگروز کسی مشکل میں پڑنے پر انسان کی طرف دیکھ کر مدد مانگتے ہیں۔

2002 میں ہونے والی تحقیق میں شامل ماہرین نے ایک ٹیسٹ کے دوران مشاہدہ کہ جب کینگروز ایک بند باکس سے کھانے کا سامان نہ نکال پاتے تو وہ انسانوں کی طرف دیکھ کر مدد کے لیے اشارہ کرتے اور اس مقام کو سونکھ کر نشاندہی کرتے ہیں جس کو کھولنا مقصود ہوتا ہے۔

کوکو، جو ایک سیلیبرٹی تھی

کوکو سان فرانسسکو میں پیدا ہونے والی ایک مادہ گوریلا کا نام ہے۔ اس کی متاثرکن مہارت کی وجہ سے لوگ اس کو بہت پسنر کرتے ہیں۔ وہ 1000 سے زائد الفاظ مہارت کے ساتھ استعمال کر سکتی تھی جبکہ انگریزی کے عام الفاظ پر بھی اس کی اچھی گرفت تھی۔

ڈاکٹر فرانسین پیٹرسن نے اس کی چند ہفتے تک تربیت کی تھی اور بہت جلد اس نے بنیادی باتیں سیکھ لی تھیں۔ کوکو نے انسانوں کو گوریلوں کے ان گہرے جذبات کے بارے میں بھی بتایا جن کو سالہاسال تک محسوس ہی نہیں کیا گیا تھا۔ اس نے دیکھ بھال کرنے والوں کے ساتھ اچھا تعلق بنایا اور ان کے ستھ بات چیت کی صلاحیت بھی پیدا کی۔

اس کی حس مزاح بھی کافی بلند تھی اور اشاروں میں کئی بار ایسی باتیں بتائیں جو عام طور پر انسان مزاح کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

کوکو 2018 میں اپنی 47ویں سالگرہ سے چند ہفتے قبل مر گئی۔ جس کے بعد انسانوں کی اس کوشش کو مزید تقویت ملی کہ جانوروں سے بات چیت کریں، ان کی بات کو سمجھیں اور سمجھائیں اور اس کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔

وہیل کے ساتھ 20 منٹ کی گفتگو

2024 میں وہیل مچھلی کے ایک پراجیکٹ پر کام کرنے والے محققین نے دنیا کو بتایا کہ انہوں نے وہیل کے ساتھ بیس منٹ تک بات کی ہے۔ ٹیم نے یہ تجربہ الاسکا کے ساحل کے قریب کیا۔

تحقیق کی سربراہ ڈاکٹر برینڈا میک کووین کا کہنا ہے کہ سپیکرز کی مدد سے پانی کے اندر ایک اور وہیل کی ریکارڈ کال چلائی گئی، جس کے جواب میں کوہان والی وہیل نے ردعمل دیا اور آوازیں نکالیں جس کو سمجھنے کے لیے اب آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ذرائع کو استعمال کیا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ دو مچھلیوں کے درمیان پہلا ریکارڈڈ رابطہ ہے، جس کو سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سائنسدانوں کو امید ہے کہ ایک روز ایسے پیغامات کا ترجمہ بھی کر لیا جائے گا۔

animal

CAN TALKS?