Aaj News

منگل, مارچ 25, 2025  
24 Ramadan 1446  

’اگر ہم جنگ کی جانب بڑھ رہے ہیں تو اس پر سوچنا چاہئے‘، مولانا فضل الرحمان کا پاک افغان تعلقات پر بیان

دہشت گردی میں ریاستی غلطیوں کا عمل دخل ہے، مولانا فضل الرحمان
شائع 2 دن پہلے

جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ جنگ پاکستان اور افغانستان میں سے کسی کے مفاد میں نہیں، اگر ہم جنگ کی جانب بڑھ رہے ہیں تو سوچنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ممکنہ جنگ کے خطرے پر مزید غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشتگردی کے حوالے سے ماضی میں ریاستی غلطیوں نے صورتحال کو پیچیدہ بنایا اور افغان جنگ میں پاکستان کا کردار بین الاقوامی سیاست سے جڑا رہا۔

مولانا فضل الرحمان نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دی، جبکہ افغان جنگ کے دوران ملک کو بیس کیمپ کے طور پر استعمال کیا گیا۔ ان کے مطابق، جہاد اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے مگر اس کے لیے حکمت عملی ضروری ہوتی ہے۔

انہوں نے سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں امریکی پالیسیوں کی حمایت کو تضادات کی جڑ قرار دیا، اور کہا کہ اس کے اثرات آج بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔

دفتر خارجہ نے بھی سمجھایا، نجی طور پر بھی سمجھایا گیا، افغان حکومت نے دلچسپی نہیں لی، فیصل کریم کنڈی

ان کا مزید کہنا تھا کہ میں افغانستان اپنی پارٹی کی کیپیسٹی میں جانے پر آمادہ ہوا، میں نے وزارت خارجہ اور حکام سے مشاورت کی اور ایجنڈا تیار کیا، میں نے افغانستان میں ایک ہفتہ گزارا، تمام مسائل پر بات کی اور اس کے نتائج بھی آئے۔

ان کا کہنا تھا کہ کسی مخصوص مکتبہ فکر کو دہشتگردی سے جوڑنا درست نہیں، جو افراد ہتھیار اٹھاتے ہیں وہ خود ذمہ دار ہوتے ہیں، جبکہ ملک میں کوئی مسلکی تصادم نہیں پایا جاتا۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ افغان علما پہلے ہی فتویٰ دے چکے ہیں کہ وہاں جہاد اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے اور اب کسی قسم کی لڑائی کو جنگ قرار دیا جائے گا، نہ کہ جہاد۔

انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کی وجوہات واضح نہیں، حالانکہ ماضی میں پاکستانی حکومت اور مذہبی رہنماؤں نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے تھے۔

قومی سلامتی کمیٹی میں کسی نئے آپریشن کی بات نہیں ہوئی، طلال چوہدری

مولانا فضل الرحمان نے حکومت پر زور دیا کہ وہ ملک میں امن و استحکام کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے اور کوئی جامع حکمت عملی ترتیب دے۔

ان کیمرا اجلاسوں سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حساس نوعیت کے معاملات کو خفیہ رکھنا ضروری ہوتا ہے، مگر بعض اوقات غلط معلومات پھیلنے سے وضاحت دینا ناگزیر ہو جاتا ہے۔

انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ جمہوریت کمزور ہوئی تو انتہا پسندی کو فائدہ ہوگا اور تمام سیاسی قوتوں کو مل کر ملک کے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہوگا۔

Molana Fazal ur Rehman

Pakistan Afghanistan Clash