نایاب ذہنی بیماری سے تنگ برطانوی آرٹسٹ کا قانونی طور پر زندگی ختم کرنے کا فیصلہ
برطانوی-گھنیائی آرٹسٹ جوزف آواہ-ڈارکو نے ذہنی بیماری کے ساتھ زندگی گزارنے کے بجائے قانونی طور پر ”یوتھنیزیا“ (رحم دلی کے تحت طبی مدد سے موت) کا انتخاب کیا ہے۔ وہ کئی سالوں سے ذہنی صحت کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں اور اپنی جدوجہد کو سوشل میڈیا پر شیئر کرتے رہے ہیں۔
اٹھائیس سالہ جوزف نے نیدرلینڈز منتقل ہونے کا فیصلہ کیا، جہاں وہ بائی پولر ڈس آرڈر کی ناقابل برداشت تکلیف کے باعث اپنی زندگی قانونی طور پر ختم کرنے کے منتظر ہیں۔ یوتھنیزیا کی منظوری میں چار سال تک لگ سکتے ہیں، اس دوران وہ ”دی لاسٹ سپر پروجیکٹ“ کے تحت مختلف افراد کے ساتھ ڈنر کے ذریعے اپنی کہانی شیئر کر رہے ہیں۔
دسمبر میں ایک جذباتی انسٹاگرام ویڈیو میں جوزف نے کہا، ’میں بائی پولر ہوں اور میں نے قانونی طور پر اپنی زندگی ختم کرنے کے لیے نیدرلینڈز منتقل ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ وہ ہر روز شدید ذہنی تکلیف کے ساتھ جاگتے ہیں، جس کی وجہ سے انہوں نے طبی مدد کے تحت موت کا راستہ چُنا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ وہ پانچ سال تک اس فیصلے پر غور کرتے رہے، اور پھر نیدرلینڈز میں یوتھنیزیا ایکسپرٹ سینٹر میں باضابطہ درخواست دی۔
انہوں نے اپنی پوسٹ میں لکھا: ’میں یہ نہیں کہہ رہا کہ زندگی گزارنے کے قابل نہیں، بلکہ یہ کہہ رہا ہوں کہ میری زندگی کا بوجھ ناقابل برداشت ہو چکا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ آج کے دور میں ذہنی دباؤ، قرضوں کا بوجھ، میڈیا کے تشدد سے بھرے مناظر اور مصنوعی ذہانت کی حقیقت جیسے عوامل زندگی کو مزید پیچیدہ بنا رہے ہیں، اور بائی پولر ڈس آرڈر نے ان کے لیے ان سب کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اب پہلے سے زیادہ ضروری ہے کہ انسان کو باوقار طریقے سے دنیا سے رخصت ہونے کا حق ملے۔ میں اب جانے کے لیے تیار ہوں‘۔
جوزف نے برطانوی اخبار ”دی ٹائمز“ کو دیے گئے انٹرویو میں بتایا کہ انہوں نے یوتھنیزیا کا انتخاب اس لیے کیا تاکہ وہ اپنی زندگی کو زیادہ سکون اور وقار کے ساتھ ختم کر سکیں۔
انہوں نے کہا، ’یہ سوچ کہ مجھے کسی دوسرے شخص کو اپنی بے جان لاش دیکھنے پر مجبور نہیں کرنا پڑے گا، نہ کوئی ٹرین کنڈکٹر، نہ بہن بھائی، نہ دوست – یہ میرے لیے سکون کا باعث ہے۔‘
ان کی کہانی کے سامنے آنے کے بعد انہیں ملا جلا ردعمل ملا۔ کچھ لوگوں نے ان کے فیصلے کا احترام کیا، جبکہ کچھ نے انہیں سوچنے کا مشورہ دیا۔ تاہم، سینکڑوں افراد نے انہیں ڈنر پر مدعو کیا، جس نے انہیں ”دی لاسٹ سپر پروجیکٹ“ شروع کرنے کی ترغیب دی۔
اب تک، وہ پیرس، میلان، برسلز اور برلن سمیت مختلف شہروں میں 57 ڈنرز کر چکے ہیں، اور اگست تک مزید 120 ملاقاتوں کا منصوبہ رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’میں نے سوچا اگر میں اپنی زندگی کے اس غیر متشدد انتقال کی تیاری کر رہا ہوں، تو کیوں نہ لوگوں سے مل کر کھانے کے دوران زندگی کے تجربات بانٹوں؟‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ اس عمل میں سکون محسوس کرتے ہیں اور لوگوں کے ساتھ جُڑنے کو اپنی زندگی کا ایک خوبصورت پہلو سمجھتے ہیں۔
”بائی پولر ڈس آرڈر کی جدوجہد جاری“
جوزف اب بھی سوشل میڈیا پر اپنی ذہنی صحت کی جدوجہد کے بارے میں شیئر کر رہے ہیں۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ ڈنرز سے انہیں کمیونٹی کا احساس تو ملا، مگر ان کی تکلیف کم نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہا: ’میں اب بھی روزانہ شدید ذہنی اذیت کے ساتھ جاگتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ جو لوگ دائمی ذہنی بیماری کا شکار ہیں، وہ میری موجودگی اور میرے فیصلے سے خود کو تسلیم شدہ محسوس کریں۔‘
بائی پولر ڈس آرڈر کیا ہے؟
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ کے مطابق، بائی پولر ڈس آرڈر دماغی بیماری کی ایک پیچیدہ شکل ہے، جو شدید موڈ تبدیلیوں اور توانائی کی سطح میں غیر متوقع اتار چڑھاؤ کا باعث بنتی ہے۔