مصطفٰی عامر کو دریجی میں قتل کرنے بعد ملزم ارمغان اور شیراز کراچی کیسے پہنچے؟ آج نیوز نے سی سی ٹی فوٹیج حاصل کر لی
کراچی کے علاقے ڈیفنس میں مصطفی عامر قتل کیس میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔ گرفتارملزمان ارمغان اور شیراز سے متعلق سی سی ٹی وی فوٹیج آج نیوز کو موصول ہو گئی، ملزمان مصطفی کو دریجی میں قتل کرنے بعد کراچی کیسے پہنچے؟ آج نیوز نے تفصیلات حاصل کرلیں۔
آج نیوز کراچی کے علاقے ڈیفنس میں مصطفی عامر قتل کیس میں گرفتار ملزمان ارمغان اور شیراز پک اپ میں بیٹھ کر کراچی آنے کی سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے لے آیا، سی سی ٹی وی فوٹیج کے مطابق ملزمان ارمغان اور شیراز کھلی سوزوکی میں بیٹھ کر کراچی واپس آئے۔ ملزمان کو سوزوکی میں بیٹھے دیکھا جا سکتا ہے۔
ملزم ارمغان اور ملزم شیراز نے مصطفی عامر کو جلانے کے بعد گھنٹوں پیدل صفر کیا۔ کئی گھنٹے پیدل چلنے کے بعد دونوں نے سوزوکی والے کو 3 ہزار روپے دے کر لفٹ لی۔
دوران تفتیش ملزم شیراز نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے مصطفیٰ عامر کو دریجی میں قتل کرنے کے بعد گاڑی کو آگ لگا دی تھی اور پھر دونوں ملزمان نے کئی گھنٹے پیدا سفر کیا، اور پک اپ ڈرائیور کو 3 ہزار روپے دے کر کراچی پہنچے تھے۔
سی سی ٹی وی فوٹیج میں ملزم ارمغان اور شیراز کوہمدرد چوکی روڈ سے سوزوکی میں بیٹھ کر گزرتے دیکھا جا سکتا ہے۔
ملزمان کی سوزوکی ہمدرد سے فور کے چورنگی کی جانب روانہ ہوئی۔ ملزمان نے اعتراف کیا تھا کہ مصطفی کے قتل کے بعد سوزوکی کی مدد سے کراچی پہنچے تھے۔
کیس کا پس منظر
یاد رہے کہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) سی آئی اے مقدس حیدر نے 14 فروری کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مقتول مصطفیٰ عامر 6 جنوری کو ڈیفنس کے علاقے سے لاپتا ہوا تھا، مقتول کی والدہ نے اگلے روز بیٹے کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا تھا۔
25 جنوری کو مصطفیٰ کی والدہ کو امریکی نمبر سے 2 کروڑ روپے تاوان کی کال موصول ہونے کے بعد مقدمے میں اغوا برائے تاوان کی دفعات شامل کی گئی تھیں اور مقدمہ اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) منتقل کیا گیا تھا۔
بعد ازاں، اے وی سی سی نے 9 فروری کو ڈیفنس میں واقع ملزم کی رہائشگاہ پر چھاپہ مارا تھا تاہم ملزم نے پولیس پر فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں ڈی ایس پی اے وی سی سی احسن ذوالفقار اور ان کا محافظ زخمی ہوگیا تھا۔
ملزم کو کئی گھنٹے کی کوششوں کے بعد گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد پولیس نے جسمانی ریمانڈ لینے کے لیے گرفتار ملزم کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا تو جج نے ملزم کا ریمانڈ دینے کے بجائے اسے عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا، جس کے خلاف سندھ پولیس نے عدالت عالیہ میں اپیل دائر کی تھی۔
ملزم نے ابتدائی تفیش میں دعویٰ کیا تھا کہ اس نے مصطفیٰ عامر کو قتل کرنے کے بعد لاش ملیر کے علاقے میں پھینک دی تھی لیکن بعدازاں اپنے بیان سے منحرف ہوگیا تھا، بعد میں اے وی سی سی اور سٹیزنز پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) اور وفاقی حساس ادارے کی مشترکہ کوششوں سے ملزم کے دوست شیراز کی گرفتاری عمل میں آئی تھی جس نے اعتراف کیا تھا کہ ارمغان نے اس کی ملی بھگت سے مصطفیٰ عامر کو 6 جنوری کو گھر میں تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کرنے کے بعد لاش اسی کی گاڑی میں حب لے جانے کے بعد نذرآتش کر دی تھی۔
ملزم شیراز کی نشاندہی کے بعد پولیس نے مقتول کی جلی ہوئی گاڑی حب سے برآمد کرلی تھی جبکہ حب پولیس مقتول کی لاش کو پہلے ہی برآمد کرکے رفاہی ادارے کے حوالے کرچکی تھی جسے امانتاً دفن کردیا گیا تھا، مصطفیٰ کی لاش ملنے کے بعد مقدمے میں قتل کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
بعدازاں پولیس نے لاش کے پوسٹ مارٹم کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں قبر کشائی کی درخواست دی تھی جس پرعدالت نے قبر کشائی کا حکم جاری کر دیا تھا۔
مواچھ گوٹھ قبرستان میں آج نیوز کی ٹیم نے مصطفی عامر کی قبر ڈھونڈ نکالی تھی جہاں ایدھی رضا کار نے آج نیوز کو بتایا کہ مسخ شدہ لاش کو لاوارث قرار دے کر تدفین کردی۔
حب پولیس نے مصطفیٰ عامر کی لاش 12جنوری کو لاوارث قرار دے کر ایدھی حکام کے حوالے کی تھی، جسے 16 جنوری کو ایدھی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا تھا۔