دور دراز کہکشاں میں آکسیجن دریافت، ماہرین حیران
ماہرین فلکیات نے کائنات کی سب سے دور موجود کہکشاں میں آکسیجن اور بھاری دھاتوں جیسے عناصر دریافت کیے ہیں، جو ایک حیرت انگیز انکشاف ہے۔ یہ کہکشاں زمین سے 13.4 ارب نوری سال کے فاصلے پر ہے، جس کا مطلب ہے کہ یہ کائنات کے ابتدائی دور میں بنی تھی۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ بگ بینگ کے نتیجے میں کائنات 13.8 ارب سال قبل وجود میں آئی تھی۔
یہ غیر معمولی طور پر بڑی اور روشن کہکشاں، جسے ”JADES-GS-z14-0“ کا نام دیا گیا ہے، سب سے پہلے جنوری 2024 میں جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ کے ذریعے دریافت کی گئی تھی۔ یہ دوربین انفراریڈ روشنی میں مشاہدہ کرتی ہے، جو انسانی آنکھ سے نظر نہیں آتی، اور کائنات کی قدیم ترین کہکشاؤں کی کھوج میں مدد دیتی ہے۔
یہ روشنی، جو کہکشاں سے نکل کر زمین تک پہنچی، 13.4 ارب سال کا سفر طے کر چکی ہے، یعنی ماہرین 300 ملین سال پرانی کائنات کو دیکھ رہے ہیں۔ بعد ازاں، چلی کے آٹاکاما ریجن میں موجود ALMA“ (Atacama Large Millimeter/submillimeter Array)“ نامی رصد گاہ نے اس کہکشاں کا مزید مشاہدہ کیا اور حیران کن طور پر وہاں آکسیجن اور بھاری دھاتوں کی موجودگی کا سراغ لگایا، جو اس بات کی علامت ہے کہ کہکشائیں توقع سے کہیں زیادہ تیزی سے بنی تھیں۔
”بالغ کہکشاں“ وہاں جہاں صرف ”نوزائیدہ کہکشائیں“ ہونی چاہیے تھیں
لیڈن یونیورسٹی کے ماہر فلکیات سینڈر شوؤس نے کہا، ’یہ ایسا ہے جیسے وہاں کسی نوجوان کو پایا جائے جہاں صرف نوزائیدہ بچے ہونے چاہیے تھے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ یہ دریافت اس نظریے کو تقویت دیتی ہے کہ ابتدائی کہکشائیں توقع سے کہیں زیادہ تیزی سے بنی اور پروان چڑھیں۔
JADES-GS-z14-0 کی ساخت اور اس میں بھاری دھاتوں کی مقدار نے ماہرین کو ششدر کر دیا ہے۔ عام طور پر، کہکشائیں ہائیڈروجن اور ہیلیئم جیسی ہلکی گیسوں سے بنتی ہیں، جبکہ وقت کے ساتھ ساتھ ستارے بھاری عناصر پیدا کرتے ہیں۔ لیکن اس کہکشاں میں توقع سے 10 گنا زیادہ بھاری عناصر پائے گئے ہیں، جو بتاتے ہیں کہ یہاں کئی نسلوں کے بڑے ستارے پہلے ہی پیدا ہو کر ختم ہو چکے ہیں۔
اٹلی کی اسکولا نورمالے سپیریوری کے ماہر فلکیات ڈاکٹر اسٹیفانو کارنیانی کہتے ہیں کہ ’یہ نتائج ظاہر کرتے ہیں ابتدائی کہکشائیں بہت تیزی سے اپنا ماس اکٹھا کر لیتی ہیں، جو موجودہ ماڈلز کے برعکس ہے۔‘
غیر متوقع طور پر روشن کہکشاں
یہ کہکشاں اپنی بڑی جسامت اور حیرت انگیز روشنی کی وجہ سے بھی ماہرین کے لیے دلچسپی کا باعث بنی ہے۔ شوؤس کے مطابق، جیمز ویب نے تقریباً 700 دور دراز کہکشاؤں کا جائزہ لیا، لیکن یہ کہکشاں سب سے زیادہ دور ہونے کے باوجود تیسری سب سے روشن نکلی۔
عام طور پر، ماہرین کا ماننا تھا کہ قدیم کہکشائیں زیادہ چھوٹی اور مدھم ہوں گی، کیونکہ اس وقت کائنات بھی چھوٹی تھی۔ مگر JADES-GS-z14-0 نے اس نظریے کو چیلنج کر دیا ہے۔
شوؤس کہتے ہیں کہ ’یہ ابتدائی کہکشائیں آج کی معروف کہکشاؤں سے بہت مختلف ہیں۔ یہ زیادہ کمپیکٹ، گیس سے بھرپور اور بے ترتیب ہیں۔ اس دور میں ستارے ایک محدود جگہ میں بہت تیزی سے تشکیل پا رہے تھے، جس سے کہکشاؤں میں زیادہ شدت دیکھی جا سکتی ہے۔‘
”جلتی ہوئی شمعوں“ کی مانند ستارے
یہ دریافت اس بات کا بھی اشارہ دیتی ہے کہ ابتدائی کہکشاؤں میں ستارے زیادہ بڑے اور زیادہ مقدار میں پیدا ہوئے ہوں گے، جو ان کی غیر معمولی روشنی کی وضاحت کرتا ہے۔
شوؤس نے اس کا موازنہ شمعوں سے کرتے ہوئیے کہا کہ ’آپ کے پاس ایک بڑی لو والی شمع ہو سکتی ہے (جو بڑے ستاروں کی طرح زیادہ روشن ہوتی ہے) یا ایک چھوٹی، دیرپا جلنے والی شمع (جو عام ستاروں کی مانند ہوتی ہے)۔‘
مزید تحقیق کی ضرورت
ماہرین اس کہکشاں کا مزید مطالعہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ آیا یہ منفرد ہے، یا اگر مزید ایسی کہکشائیں بھی موجود ہیں جو جلدی تشکیل پا کر روشن ہو چکی تھیں۔
یورپی ماہر فلکیات گیرگو پاپنگ نے کہا، ’یہ دریافت ظاہر کرتی ہے کہ ابتدائی کہکشائیں بگ بینگ کے بعد توقع سے کہیں زیادہ تیزی سے بنی تھیں۔ یہ ALMA رصدگاہ کے اہم کردار کو بھی اجاگر کرتی ہے، جو کائنات کے ابتدائی حالات کو سمجھنے میں مدد دے رہی ہے۔‘
کارنیانی نے کہا کہ جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ اور ALMA کی مشترکہ تحقیقات کائناتی سحر انگیزی کے ابتدائی رازوں سے پردہ اٹھا سکتی ہیں، اور یہ بتا سکتی ہیں کہ ابتدائی ستارے اور کہکشائیں کیسے وجود میں آئیں۔
یہ دریافت کائنات کے جنم کے بعد ہونے والے واقعات کو سمجھنے کے لیے ایک اہم سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے۔