سینیئر صحافی اور یوٹیوب چینل کے بانی فرحان ملک گرفتار
سینیئر صحافی اور یوٹیوب چینل رفتار کے بانی فرحان ملک کو ایف آئی اے نے کراچی میں گرفتار کر لیا ہے۔ رفتار کے ایڈیٹر فہد کیہر اور فرحان ملک کے بعض قانونی معاملات دیکھنے والے عبدالمعیز جعفری نے گرفتاری کی تصدیق کی ہے۔
فرحان ملک کے قانونی معاملات دیکھنے والے معروف وکیل عبدالمعیز جعفری کے مطابق انہیں جو ابتدائی اطلاعات ملی ہیں ان کے مطابق یہ گرفتاری بظاہر پیکا ایکٹ کی نئی دفعات کے تحت عمل میں لائی گئی ہے تاہم ایف ائی اے نے تاحال ایف آئی آر یا معاملے کی تفصیلات فرحان ملک کے اہل خانہ کو نہیں بتائیں۔
عبدالمعیز جعفری کے مطابق فرحان ملک کو ایف آئی اے نے پوچھ کچھ کے لیے اپنے پاس بلایا تھا اور دو سے تین گھنٹے انہیں وہاں رکھنے کے بعد گرفتار کر لیا گیا۔
رفتار نے اپنے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں کہا ہے کہ ایف ائی اے کے حکام بدھ کے روز بغیر کسی نوٹس کے رفتار کے دفتر آئے انہوں نے عملے کو حراساں کیا اور فرحان ملک کو جو جمعرات کے روز ایک بجے اپنے دفتر طلب کیا، اس حکم کی تعمیل میں فرحان ملک متعلقہ دفتر پہنچے تاہم کئی گھنٹے انتظار کرانے کے بعد شام چھ بجے گرفتار کر لیا گیا۔
بیان میں مطالبہ کیا گیا کہ ایف آئی اے کی جانب سے اس معاملے کی فوری طور پر وضاحت کی جائے۔
ایف آئی اے نے گرفتاری پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ فرحان ملک کو ان کے خلاف درج انکوائری میں باقاعدہ طور پر گرفتار کیا گیا ہے۔ اس سے قبل بھی انہیں بیانات ریکارڈ کروانے کے لیے کئی بار طلب کیا گیا تھا۔
ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ تحقیقات مکمل ہونے کے بعد فرحان ملک کی گرفتاری عمل میں لائی گئی اور ان سے مزید پوچھ گچھ جاری ہے۔
ذرائع کے مطابق، گزشتہ روز بھی ایف آئی اے نے رفتار کے دفتر کا دورہ کیا تھا، تاہم فرحان ملک اس وقت دفتر میں موجود نہیں تھے۔
فرحان ملک کو ماضی میں بھی ایف ائی اے پوچھ گچھ کے لیے طلب کر چکی ہے۔ تاہم عبدالمعیز جعفری کے مطابق حالیہ معاملہ پچھلے معاملات سے الگ ہے۔
رفتار کے ایڈیٹر فہد کیہر نے آج نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایف آئی آر کی نقل تاحال رفتار کے کسی شخص سے شیئر نہیں کی گئی۔
فہد کیہر کا کہنا تھا کہ وہ کچھ نہیں کہہ سکتے کہ رفتار کی کون سی ویڈیو کسی کی ناراضگی کا سبب بنی۔
فرحان ملک اس سے قبل سماء ٹی وی کے ڈائریکٹر نیوز رہ چکے ہیں اور جیو نیوز سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں اور سوشل میڈیا پر ایک سرگرم ڈیجیٹل صحافی کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر صحافیوں نے ان کی گرفتاری کی اطلاعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔