قومی اسمبلی میں جعفر ایکسپریس حملے کے خلاف متفقہ مذمتی قرارداد منظور
قومی اسمبلی میں جعفر ایکسپریس پر دہشت گردی کے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے متفقہ قرارداد منظور کر لی گئی۔ قرارداد وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور طارق فضل چوہدری نے پیش کی، جس میں کہا گیا کہ کسی کو بھی دہشت گرد کارروائیوں کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ملک کو کمزور کرنے والوں کو قانون کا سامنا کرنا پڑے گا۔
قرارداد میں واضح کیا گیا کہ قومی اسمبلی ملک کی سلامتی اور استحکام کے خلاف ہر قسم کی سازش کی مذمت کرتی ہے۔ ایوان نے دہشت گردوں کے خلاف سیکیورٹی فورسز کی بروقت کارروائی کو سراہا اور مسلح افواج کے کردار کی تعریف کی۔
قرارداد میں کہا گیا کہ جعفر ایکسپریس پر حملہ ملک دشمن عناصر کی بزدلانہ کارروائی ہے، جسے پوری قوم مسترد کرتی ہے۔ قومی اسمبلی نے اس عزم کا اظہار کیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پوری قوت سے جاری رہے گی اور ملک کی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
جعفر ایکسپریس حملہ: پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا نے دہشت گردوں کو کریڈٹ دیا، وزیر دفاع
وزیر دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو مکمل طور پر ختم کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ ان کے خطاب کے دوران اپوزیشن اراکین نے احتجاج کیا، تاہم اسپیکر نے انہیں خاموش کرا دیا۔
خواجہ آصف نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی اور ہماری افواج نے جو کردار ادا کیا، اس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی فورسز نے کم سے کم نقصان کے ساتھ بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور یرغمال مسافروں کی بازیابی ممکن بنائی۔ انہوں نے جعفر ایکسپریس پر حملے کے خلاف کیے گئے آپریشن کو تاریخ کا ایک سنہری باب قرار دیا۔
خواجہ آصف نے پی ٹی آئی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ان کے سوشل میڈیا نے دہشت گردوں کو کریڈٹ دیا اور اس واقعے کو سیاست کے لیے استعمال کیا۔ انہوں نے کہا کہ کل ایسے لوگ فارم 47 کا طعنہ دے رہے تھے جو تینوں مارشل لاء کی پیداوار ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ سوات کا قصاب کون تھا جسے یہاں بسایا گیا؟
ملک میں دہشت گردی کے خلاف حاصل کی گئی کامیابیاں ہم کھو چکے، بلاول
انہوں نے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل فیض حمید کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ دہشت گردوں کو واپس لانے کے حامی تھے اور آج ان کے حمایتی دہشت گردوں کے خلاف بات کرنے سے بھی گھبراتے ہیں۔
وزیر دفاع نے کہا کہ پی ٹی آئی اقتدار کی جنگ تو لڑ سکتی ہے لیکن ملک کی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی والے شہداء کی توہین کر رہے ہیں اور وہی لوگ جو کل جنرل باجوہ کو اپنا رہنما مانتے تھے، آج ان پر تنقید کر رہے ہیں۔
خواجہ آصف نے مزید کہا کہ جو لوگ سیاست کے لیے اپنا باپ بدل سکتے ہیں، ان کی کیا سیاسی اخلاقیات ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ سب نے اللہ کو جان دینی ہے، صرف ایک شخص ہی اکیلا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کے حمایتی یہ نعرے لگاتے ہیں کہ خان نہیں تو پاکستان نہیں، لیکن انہیں ایسی باتیں نہیں کرنی چاہئیں جن پر بعد میں شرمندگی اٹھانا پڑے۔
وزیر دفاع بولان دہشت گرد حملے پر پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کے رویے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ سب نے دیکھا کہ کس طرح اس واقعے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ ان کے ریمارکس پر اپوزیشن اراکین نے شدید احتجاج کیا، جس پر ایوان میں شور شرابہ دیکھنے میں آیا۔
اسپیکر نے اپوزیشن اراکین کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ جب عمر ایوب نے گزشتہ روز تقریر کی تھی تو کسی حکومتی رکن نے انہیں نہیں ٹوکا تھا، پھر آج اس قدر شور کیوں مچایا جا رہا ہے؟
خواجہ آصف نے کہا کہ 75 سال سے ملک میں ہونے والے واقعات پر سیاستدان معذرت کرنے کے بجائے انہیں سیاسی رنگ دیتے رہے ہیں، جس کی وجہ سے یہ مسائل مزید بڑھتے گئے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے ماضی میں آمریت کا ساتھ دینے پر کئی مرتبہ معذرت کی ہے اور آج بھی کرتے ہیں، لیکن آپ لوگ؟ کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے۔
خواجہ آصف نے اعتراف کیا کہ 80 کی دہائی میں مارشل لا حکومت کے دوران ان کی اور ان کی جماعت کے کچھ لوگوں کی وابستگی رہی، اور اس پر بات کرتے ہوئے انہیں شرمندگی ہوتی ہے، لیکن جو لوگ کل تک جنرل مشرف کے ساتھ بیٹھے تھے، وہ آج ہمیں جمہوریت کا درس دے رہے ہیں۔
انہوں نے عمر ایوب کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ بھی اس جماعت میں رہ چکے ہیں جس پر آج اعتراضات کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کل عمر ایوب نے ہماری قیادت، صدر مملکت اور دیگر حکومتی شخصیات کے خلاف کھل کر بات کی، لیکن ہماری طرف سے کسی نے احتجاج نہیں کیا۔
خواجہ آصف نے مزید کہا کہ کل اسپیکر سمیت پوری حکومت کو غیر قانونی قرار دیا گیا، صدر اور وزیر اعظم پر بھی یہی الزام لگایا گیا، لیکن پی اے سی کا چیئرمین قانونی ہے، قائمہ کمیٹیاں قانونی ہیں، جو مراعات اور گاڑیاں لیتے ہیں وہ سب قانونی ہیں؟ یہ دوہرا معیار اب مزید نہیں چلے گا۔
اسد قیصر کا خواجہ آصف کو جواب
سابق اسپیکر اسد قیصر نے اظہار خیال کرتے ہوئے حکومت اور وزیر دفاع کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ وزیر دفاع کے دل و دماغ پر صرف پی ٹی آئی سوار ہے، حالانکہ انہیں قومی اتفاق رائے پیدا کرنا چاہیے تھا۔ اسد قیصر نے مزید کہا کہ دہشت گردی کے حالیہ واقعے پر وزیر دفاع کو مستعفی ہو جانا چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں آئین اور قانون کی کوئی حیثیت نہیں رہی، اداروں کی عزت ختم ہو چکی ہے اور موجودہ اسمبلی میں وہ طاقت نہیں کہ یہ عوام کی حقیقی نمائندگی کر سکے۔ اسد قیصر نے مطالبہ کیا کہ ملک میں شفاف انتخابات کرائے جائیں اور خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات پر تحفظات ہمیں بھی ہیں، لیکن مسائل کا حل مذاکرات کے ذریعے نکالا جانا چاہیے۔
اسد قیصر نے کہا کہ چھوٹے صوبوں کو جان بوجھ کر محروم رکھا جا رہا ہے، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال تشویشناک ہے۔ کراچی کی حالت زار پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج کراچی میں سڑکیں تباہ حال ہیں، ٹرانسپورٹ کا نظام درہم برہم ہے اور یہ سب وفاقی حکومت کی نااہلی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کراچی روشنیوں کا شہر ہے، اسے اس کا حق ملنا چاہیے۔
فاروق ستار کا اظہار خیال
ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما فاروق ستار نے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے جعفر ایکسپریس پر دہشت گردوں کے حملے کو قابل مذمت قرار دیا اور کہا کہ حکومت اور دیگر جماعتیں صرف مذمت تک محدود نہ رہیں بلکہ عملی اقدامات بھی کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں خوشی ہے کہ ایوان نے متفقہ قرارداد منظور کی، کیونکہ اس وقت قومی یکجہتی اور سالمیت کو بڑا چیلنج درپیش ہے۔
فاروق ستار نے کہا کہ بلوچستان میں جو کچھ بھی ہوتا ہے، اس کے اثرات کراچی پر پڑتے ہیں، اس لیے دہشت گردی کی کسی بھی شکل میں مذمت کی جانی چاہیے۔ انہوں نے ملک میں جاری سیاسی اور معاشی بحران پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کو آل پارٹیز کانفرنس بلانی چاہیے تاکہ قومی سلامتی کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تمام سیاسی جماعتیں مشترکہ حکمت عملی تیار کر سکیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی گورننس کو بہتر کرنا ہوگا اور نیشنل ایکشن پلان پر نظر ثانی کرنی ہوگی۔ فاروق ستار نے خبردار کیا کہ ملک میں جگہ جگہ ریاست کے اندر ریاستیں بن رہی ہیں اور اب ہماری آنکھیں مکمل طور پر کھل جانی چاہئیں۔