Aaj News

جمعہ, اپريل 18, 2025  
19 Shawwal 1446  

شام میں ’علوی برادری‘ نئی حکومت کے عتاب میں کیوں؟

بشار الاسد کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد نئے حکومتی حامی مسلح گروہوں نے علوی برادری کے خلاف مبینہ طور پر انتقامی کارروائیاں شروع کر دی ہیں
شائع 10 مارچ 2025 10:14am

بشار الاسد کے اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد شام میں علوی برادری کے مستقبل پر غیر یقینی کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ ایک وقت میں طاقتور سمجھی جانے والی یہ برادری اب باغی گروہوں اور اسد کے دور میں مظلوم رہنے والی سنی آبادی کے انتقامی حملوں کا سامنا کر رہی ہے۔ شام میں طاقت کا توازن پرتشدد طریقے سے بدل رہا ہے، اور اس دوران ہونے والے حملوں میں اب تک ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سینکڑوں علوی بھی شامل ہیں۔ یہ تشدد شام میں جاری تنازعے کے آغاز سے لے کر اب تک کے مہلک ترین واقعات میں شمار کیا جا رہا ہے۔

برطانیہ میں قائم شامی آبزرویٹری برائے انسانی حقوق (SOHR) کے مطابق، ہلاک شدگان میں 745 عام شہری شامل ہیں، جن میں سے زیادہ تر کو قریب سے گولیاں مار کر قتل کیا گیا۔ علاوہ ازیں، 125 سرکاری سیکیورٹی اہلکار اور بشارالاسد سے وابستہ مسلح گروہوں کے 148 جنگجو بھی مارے گئے۔ لڑائی کے باعث لطاکیہ کے بڑے حصے میں بجلی اور پینے کے پانی کی فراہمی معطل ہو گئی ہے۔

شامی آبزرویٹری برائے انسانی حقوق کی رپورٹ کے مطابق، شامی سیکیورٹی فورسز نے لطاکیہ صوبے میں کم از کم 162 علوی باشندوں کو ”میدان میں سر عام پھانسی“ دی۔ لطاکیہ، جو بشار الاسد کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا تھا، علوی برادری کا مرکز بھی رہا ہے۔ شامی وزارت داخلہ نے ساحلی علاقے میں ہونے والی ”چند انفرادی خلاف ورزیوں“ کا اعتراف کرتے ہوئے کارروائی کا وعدہ کیا ہے۔

یہ جھڑپیں چھ مارچ کو شروع ہوئیں اور شام کی نئی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکی ہیں۔ تین ماہ قبل اسد کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے بعد نئی حکومت نے اقتدار سنبھالا تھا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ہلاکتیں اسد کے باقی ماندہ حامیوں کے حملوں کے ردعمل میں ہوئی ہیں اور ان واقعات کو ”الگ تھلگ واقعات“ قرار دیا جا رہا ہے۔

علوی کون ہیں؟

علوی شام کی ایک مذہبی اقلیت ہیں، جو ملک کی تقریباً 12 فیصد آبادی پر مشتمل ہیں۔ یہ شیعہ کمیونٹی سے جڑے ہوئے ہیں اور ان کے اپنے منفرد عقائد اور رسومات ہیں۔ تاریخی طور پر، علوی شام کے ساحلی علاقوں میں آباد رہے ہیں، خاص طور پر لطاکیہ اور طرطوس صوبوں میں۔ بشار الاسد کا خاندان، جس نے دسمبر 2024 تک شام پر پانچ دہائیوں تک حکومت کی، اسی فرقے سے تعلق رکھتا ہے۔ اسد کے دور میں علوی برادری کے افراد کو فوج اور حکومت میں نمایاں مقام حاصل تھا، جس کے باعث انہیں ایک بااثر طبقہ سمجھا جاتا تھا۔

بشار الاسد کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد نئے حکومتی حامی سنی مسلح گروہوں نے علوی برادری کے خلاف مبینہ طور پر انتقامی کارروائیاں شروع کر دی ہیں، جس سے شام میں فرقہ وارانہ تقسیم مزید گہری ہو رہی ہے۔ یہ صورتحال حیات تحریر الشام کے لیے بھی ایک چیلنج بن گئی ہے، جو اسد کے اقتدار کے خاتمے میں اہم کردار ادا کر چکی ہے۔

علوی برادری کے خلاف تشدد

بین الاقوامی میڈیا کے مطابق دہائیوں تک علوی بشار الاسد کے اقتدار کی بنیاد سمجھے جاتے تھے، لیکن اب وہ انتقامی حملوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق، علوی دیہات میں خوفناک مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں، جہاں مسلح افراد شہریوں کو ان کے گھروں کی دہلیز پر یا سڑکوں پر قتل کر رہے ہیں۔ گھروں کو لوٹا اور جلایا جا رہا ہے، جس کے باعث ہزاروں افراد قریبی پہاڑوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

بنیاس سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں سے ایک ہے، جہاں تشدد کی کچھ انتہائی ہولناک وارداتیں پیش آئی ہیں۔ یہ حملے شام میں جاری خانہ جنگی کے دوران فرقہ وارانہ کشیدگی میں شدت کی ایک نئی لہر کو ظاہر کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں ملک میں مزید عدم استحکام کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔

Syria

bashar al assad

Attacks on Alawites