مصطفی قتل کیس؛ مرکزی ملزم ارمغان کے گرد گھیرا مزید تنگ، ایف آئی اے نے ارمغان کے گھر سے مزید اٹھارہ لیپ ٹاپ اور الیکٹرانک آلات برآمد کرلیے
مصطفی قتل کیس کے مرکزی ملزم ارمغان کے گرد گھیرا مزید تنگ کر دیا گیا۔ ایف آئی اے نے ارمغان کے گھر سے مزید اٹھارہ لیپ ٹاپ اور الیکٹرانک آلات برآمد کرلیے۔ بیش قیمت اوڈی کاربھی تحویل میں لے لی۔ تاہم لال رنگ کا بیش قیمت ٹرک غائب ہے۔ منشیات فروشی کی تحقیقات کے لیے پانچ رکنی خصوصی ٹیم قائم کر دی گئی۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے مرکزی ملزم ارمغان کے گھرچھاپہ مارا، کمروں کی تلاشی لے کرتمام سامان کی چھان بین کی۔ گزری پولیس کی موجودگی میں شواہد اکھٹا کئے اورالیکٹرانکس ڈیوائسز اور قیمتی گاڑیاں لفٹ کرلی گئیں۔
ملزم ارمغان کے گھرمیں موجود کھڑی قیمتی گاڑی کو ٹرک میں لفٹ کیا گیا۔ ٹیم کی جانب سے مکمل انویںٹری تیار کی گئی، گھر سے 18 مزید لیپ ٹاپ اور الیکٹرانک آلات برآمد کیے گئے۔
ملزم ارمغان کی ملکیت بیش قیمت اوڈی کار بھی تحویل میں لے لی گئی۔ ضبط شدہ کار کو تفتیش کا حصہ بنایا جائے گا۔ تاہم لال رنگ کا بیش قیمت ٹرک غائب ہے۔
ایف آئی اے اینٹی منی لانڈرنگ ٹیم 3 گھنٹےسے زائد ارمغان کے گھر رہی۔ ایف آئی اے ٹیم گاڑی اور تمام سامان کے ساتھ روانہ ہوگئی۔
ملزم ارمغان کے گھر سے مختلف قسم کا 98 عدد سامان تحویل میں لیا گیا ہے۔ ایف آئی اے نے سرچ وارنٹ گزشتہ روز حاصل کئے تھے۔
ارمغان سے منشیات فروشی کی تحقیقات بھی تیزکردی گئیں، محکمہ ایکسائز اینڈ نارکوٹکس کنٹرول نے پانچ رکنی خصوصی کمیٹی قائم کردی ۔
کیس کا پس منظر
یاد رہے کہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) سی آئی اے مقدس حیدر نے 14 فروری کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مقتول مصطفیٰ عامر 6 جنوری کو ڈیفنس کے علاقے سے لاپتا ہوا تھا، مقتول کی والدہ نے اگلے روز بیٹے کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا تھا۔
25 جنوری کو مصطفیٰ کی والدہ کو امریکی نمبر سے 2 کروڑ روپے تاوان کی کال موصول ہونے کے بعد مقدمے میں اغوا برائے تاوان کی دفعات شامل کی گئی تھیں اور مقدمہ اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) منتقل کیا گیا تھا۔
بعد ازاں، اے وی سی سی نے 9 فروری کو ڈیفنس میں واقع ملزم کی رہائشگاہ پر چھاپہ مارا تھا تاہم ملزم نے پولیس پر فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں ڈی ایس پی اے وی سی سی احسن ذوالفقار اور ان کا محافظ زخمی ہوگیا تھا۔
ملزم کو کئی گھنٹے کی کوششوں کے بعد گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد پولیس نے جسمانی ریمانڈ لینے کے لیے گرفتار ملزم کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا تو جج نے ملزم کا ریمانڈ دینے کے بجائے اسے عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا، جس کے خلاف سندھ پولیس نے عدالت عالیہ میں اپیل دائر کی تھی۔
ملزم نے ابتدائی تفیش میں دعویٰ کیا تھا کہ اس نے مصطفیٰ عامر کو قتل کرنے کے بعد لاش ملیر کے علاقے میں پھینک دی تھی لیکن بعدازاں اپنے بیان سے منحرف ہوگیا تھا، بعدازاں اے وی سی سی اور سٹیزنز پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) اور وفاقی حساس ادارے کی مشترکہ کوششوں سے ملزم کے دوست شیراز کی گرفتاری عمل میں آئی تھی جس نے اعتراف کیا تھا کہ ارمغان نے اس کی ملی بھگت سے مصطفیٰ عامر کو 6 جنوری کو گھر میں تشدد کا نشانہ بناکر قتل کرنے کے بعد لاش اسی کی گاڑی میں حب لے جانے کے بعد نذرآتش کردی تھی۔
ملزم شیراز کی نشاندہی کے بعد پولیس نے مقتول کی جلی ہوئی گاڑی حب سے برآمد کرلی تھی جبکہ حب پولیس مقتول کی لاش کو پہلے ہی برآمد کرکے رفاہی ادارے کے حوالے کرچکی تھی جسے امانتاً دفن کردیا گیا تھا، مصطفیٰ کی لاش ملنے کے بعد مقدمے میں قتل کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
تفتیشی افسران کے مطابق حب پولیس نے ڈی این اے نمونے لینے کے بعد لاش ایدھی کے حوالے کی تھی، گرفتار کیا گیا دوسرا ملزم شیراز ارمغان کے پاس کام کرتا تھا، قتل کے منصوبے اور لاش چھپانےکی منصوبہ بندی میں شیراز شامل تھا۔
کراچی پولیس کا کہنا ہے کہ مقتول مصطفیٰ کا اصل موبائل فون تاحال نہیں ملا ہے، ملزم ارمغان سے لڑکی کی تفصیلات، آلہ قتل اور موبائل فون کے حوالے سے مزید تفصیلات حاصل کی جائیں گی۔
بعدازاں پولیس نے لاش کے پوسٹ مارٹم کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں قبر کشائی کی درخواست دی تھی جس پر گزشتہ روز عدالت نے قبر کشائی کا حکم جاری کردیا تھا۔
دریں اثنا، 15 فروری کو ڈان نیوز کی رپورٹ میں تفتیشی حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑے کی وجہ ایک لڑکی تھی جو 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی تھی، لڑکی سے انٹرپول کے ذریعے رابطے کی کوشش کی جارہی ہے۔
تفتیشی حکام نے بتایا کہ ملزم ارمغان اور مقتول مصطفیٰ دونوں دوست تھے، لڑکی پر مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑا نیو ایئر نائٹ پر شروع ہوا تھا، تلخ کلامی کے بعد ارمغان نے مصطفیٰ اور لڑکی کو مارنے کی دھمکی دی تھی۔
پولیس حکام نے بتایا کہ ارمغان نے 6 جنوری کو مصطفیٰ کو بلایا اور تشدد کا نشانہ بنایا، لڑکی 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی جس سے انٹرپول کے ذریعے رابطہ کیا جارہا ہے، کیس کے لیے لڑکی کا بیان ضروری ہے۔
Comments are closed on this story.