ایک انجینئر کا دوغلاپن، جس نے تائیوان کا نیوکلئیر ہتھیاروں کا پروگرام بند کروا دیا
جنوری 1988 میں تائیوان کے ایک اعلیٰ نیوکلیئر انجینئر نے امریکہ میں پناہ لی اور ایسی خفیہ معلومات فراہم کیں جس نے تائیوان کی تاریخ کا رخ موڑ دیا۔ کرنل چانگ شین یی، جو کہ تائیوان کے نیوکلیئر ہتھیاروں کے خفیہ منصوبے میں مرکزی کردار ادا کر رہے تھے، درحقیقت امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے مخبر تھے۔
1960 اور 1980 کی دہائی میں، جب تائیوان چین کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش نظر اپنا نیوکلیئر ہتھیار تیار کر رہا تھا، چانگ نے امریکہ کو وہ خفیہ معلومات فراہم کیں جس کی بنیاد پر امریکی حکومت نے تائیوان پر دباؤ ڈالا اور اس کا نیوکلیئر پروگرام بند کروا دیا۔ اگرچہ تائیوان کے کچھ حلقے انہیں غدار سمجھتے ہیں، لیکن چانگ کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ فیصلہ ملک کی بہتری کے لیے کیا۔
تائیوان کا نیوکلیئر خواب
1964 میں جب چین نے اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ کیا تو تائیوان کی حکومت کو شدید تشویش لاحق ہو گئی کہ کہیں یہ ہتھیار ان کے خلاف استعمال نہ ہو۔ اسی خوف کے باعث تائیوان کے اس وقت کے حکمران چیانگ کائی شیک نے 1966 میں ایک خفیہ منصوبے کا آغاز کیا جس کا مقصد نیوکلیئر ہتھیار بنانے کی تکنیکی بنیادیں رکھنا تھا۔ اس منصوبے کی نگرانی ”چونگ شان سائنس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ“ نے کی، جہاں چانگ نے ایک فوجی کیپٹن کے طور پر شمولیت اختیار کی۔

چانگ کو نیوکلیئر فزکس اور انجینئرنگ میں تربیت کے لیے امریکہ بھیجا گیا، جہاں انہوں نے ٹینیسی کے ”اوک رج نیشنل لیبارٹری“ میں تعلیم حاصل کی۔ اگرچہ سرکاری طور پر تائیوان کا مؤقف یہی تھا کہ ان کا نیوکلیئر پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے، لیکن چانگ کے بقول، ’ہم سب جانتے تھے کہ ہمارا اصل مقصد ہتھیاروں کی تیاری کی مہارت حاصل کرنا ہے۔‘
امریکا نے اپنا سُپر نیوکلئیر ہتھیار بنانے کا طریقہ کار کھو دیا
امریکی شک اور سی آئی اے کی دلچسپی
1977 میں چانگ نے نیوکلیئر انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی مکمل کی اور تائیوان واپس آ گئے، جہاں وہ ”انسٹی ٹیوٹ آف نیوکلیئر انرجی ریسرچ“ میں کام کرنے لگے، جو کہ بظاہر ایک سویلین ادارہ تھا، مگر درپردہ نیوکلیئر ہتھیاروں کی تیاری میں مصروف تھا۔
امریکی حکومت، جو کہ جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کی سخت مخالف تھی، تائیوان کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھے ہوئے تھی۔ 1980 میں، سی آئی اے نے ایک بار پھر چانگ سے رابطہ کیا، اور اس بار وہ ان سے تعاون پر آمادہ ہو گئے۔ چار سال تک وہ سی آئی اے کو انتہائی حساس معلومات فراہم کرتے رہے، جن میں نیوکلیئر تجربات کے نتائج اور تائیوان کے منصوبوں کی تفصیلات شامل تھیں۔
امریکا نے فائلوں کے کیبنٹ پر نیوکلئیر بم کیوں گرائے؟
فیصلہ کن لمحہ اور امریکہ فرار
1986 میں یوکرین میں چرنوبل نیوکلیئر حادثے نے چانگ کے خدشات کو مزید بڑھا دیا۔ وہ سمجھتے تھے کہ اگر تائیوان نے ایٹمی ہتھیار بنا لیے تو چین کی طرف سے شدید ردعمل آسکتا ہے، جو جنگ کا باعث بن سکتا تھا۔
1988 میں سی آئی اے نے چانگ اور ان کے خاندان کو خفیہ طور پر امریکہ منتقل کر دیا۔ کچھ ہی عرصے بعد، امریکہ نے تائیوان پر دباؤ ڈالا اور تائیوان کے صدر لی تینگ ہوئی کو نیوکلیئر پروگرام مکمل طور پر بند کرنے پر مجبور کر دیا۔ امریکی ماہرین نے تائیوان جا کر نیوکلیئر تنصیبات کو غیر مؤثر بنایا اور وہ تمام مواد ضبط کر لیا جو نیوکلیئر ہتھیار بنانے میں استعمال ہو سکتا تھا۔

ہیرو یا غدار؟
چانگ کے اس اقدام نے تائیوان میں ایک نئی بحث چھیڑ دی۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر تائیوان نے نیوکلیئر ہتھیار بنا لیے ہوتے تو آج چین اس پر حملہ کرنے کی جرات نہ کرتا، بالکل اسی طرح جیسے یوکرین کو اپنا نیوکلیئر پروگرام ختم کرنے پر آج پچھتاوا ہے۔ تاہم، کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ نیوکلیئر ہتھیاروں کے بغیر بھی تائیوان نے اپنی دفاعی صلاحیت کو جدید ٹیکنالوجی اور امریکہ کی حمایت سے برقرار رکھا ہوا ہے۔

کھوئے ہوئے نیوکلئیر ہتھیاروں کی کہانی
چانگ، جو اب امریکہ میں ایک پُرسکون زندگی گزار رہے ہیں، اپنے فیصلے پر مطمئن ہیں۔ ان کے بقول، ’میں نے کوئی غداری نہیں کی۔ میں نے وہی کیا جو تائیوان کے عوام کے لیے بہتر تھا۔ اگر ہمارا نیوکلیئر پروگرام مکمل ہو جاتا تو چین ہمیں برداشت نہ کرتا، اور آج حالات کہیں زیادہ کشیدہ ہوتے۔‘
Comments are closed on this story.