ڈپریشن کی دواؤں کی لت ہیروئن سے بھی خطرناک؟ ماہرین نے بڑے دعوے کا جواب دے دیا
رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر جو کہ ایک امریکی وکیل، ماہر ماحولیات، اور سیاستدان ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں امریکی سینیٹ کی تصدیقی سماعت میں اینٹی ڈپریسنٹس کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا اور بحث چھیڑ دی کہ آیا یہ دوائیں مریض کو ویسی ہی لت میں مبتلا کرتی ہیں جتنی کہ عام طور پر ہیروئن کرتی ہے۔
کینیڈی جونئیر نے کہا کہ وہ جانتے ہیں بعض افراد کو سلیکٹیو سیروٹونن ری اپٹیک انحیبیٹرز چھوڑنے میں مشکلات پیش آتی ہیں، اور اس دوران انہیں زیادہ مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔
کیا صبح کی چائے آپ کو توانائی دینے کی بجائے تھکا دیتی ہے؟
خود ہیروئن کی عادت کا شکار رہ کر 42 سال سے صحت یاب کینیڈی نے کہا کہ ڈپریشن کی دوائیں بعض افراد پر سخت برے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ تاہم، ماہرین نے اس بات کی وضاحت کی کہ اینٹی ڈپریسنٹس کا نشہ آور ہونا درست نہیں ہے، بلکہ ان دواؤں کو چھوڑتے وقت بعض افراد کو صحت کی طرف واپسی کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے، جو نشے کی علامت نہیں بلکہ دوا کے اثرات سے جڑا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نشہ آور ادویات کی عادت اور دماغی صحت کے مسائل کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی دواؤں کی وابستگی میں فرق ہوتا ہے۔
ماہرین کے مطابق، یہ اہم ہے کہ منشیات کی لت اور دماغی صحت کے علاج کی دواؤں میں فرق کیا جائے۔
کیلیفورنیا کی سٹینفورڈ یونیورسٹی کے ڈاکٹر کیتھ ہمفریز نے بتایا کہ نشہ آور ادویات جیسے ہیروئن، کوکین، اور الکحل دماغ کے سسٹم پر اثر انداز ہوتی ہیں، جبکہ اینٹی ڈپریسنٹس کا اثر مختلف طریقے سے ہوتا ہے۔
ڈاکٹر گیل سالٹز نے کہا کہ اینٹی ڈپریسنٹس کے بارے میں بات کرتے وقت درست الفاظ کا استعمال ضروری ہے تاکہ دماغی صحت کے مسائل کے بارے میں بدنامی سے بچا جا سکے اور افراد کو مدد لینے میں رکاوٹ نہ ہو۔ یہ بات اہم ہے کہ علاج کے فیصلے کرتے وقت مختلف تجربات اور افراد کی ضروریات کا بھی خیال رکھا جائے۔
اس گفتگو کے دوران، ماہرین نے وضاحت کی کہ اینٹی ڈپریسنٹس کا مقصد دماغی صحت کے مسائل کو حل کرنا ہے، نہ کہ ان کا اثر منشیات کی لت کے برابر رکھا جائے۔
کیلیفورنیا کی اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے ڈاکٹر کیتھ ہمفریز، جو نشے پر تحقیق کرتے ہیں، نے کہا کہ تمام نشہ آور ادویات جیسے ہیروئن، اوپیئڈز، کوکین اور الکحل دماغ کے ایک خاص سسٹم کے ذریعے بہت زیادہ سکون دیتی ہیں۔ جس کی وجہ سے انسان نشے کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔
Comments are closed on this story.