کیس میں ایک اور پیشرفت، ملزم ارمغان کے دیگر ساتھیوں کی چھان بین کیلئے خصوصی ٹیم تشکیل
**کراچی میں مصطفیٰ عامر قتل کیس میں ایک اور اہم پیشرفت سامنے آئی ہے، کیس کی خصوصی تفتیش کے لیے ٹیم تشکیل دے دی گئی۔ ٹیم کے سربراہ ڈی آئی جی سی آئی اے مقدس حیدر ہوں گے ، ایس ایس پی عرفان بہادر اور ایس ایس پی انیل حیدر بھی شامل ہیں۔ **
ایڈیشنل آئی جی کراچی جاوید عالم اوڈھو کی جانب سے تشکیل کردہ ٹیم کے سربراہ ڈی آئی جی سی آئی اے مقدس حیدر مقرر ہوں گے۔
نوٹی فیکشن کے مطابق دیگر ممبران میں ایس ایس پی عرفان بہادر، ایس ایس پی انیل حیدر، ایس ایس پی قیص خان، ایس پی علینہ راجپر اور ایس ایس پر اظہر جاوید بھی ٹیم میں شامل ہیں۔
خصوصی ٹیم گرفتار ملزم ارمغان کے حوالے سے تفتیش کرے گی اورملزم ارمغان کے دیگر ساتھیوں دوستوں کے حوالے سے بھی چھان بین کی کرے گی۔
تفتیشی ٹیم منشیات فروشی میں ملوث افراد کی شناخت اور گرفتاری عمل میں لائی جائے گی۔
گواہ غلام مصطفیٰ نے دونوں ملزمان ارمغان اور شیراز کو شناخت کرلیا
اس سے قبل پولیس نے جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی کی عدالت میں مصطفیٰ عامر قتل کیس کے دو اہم گواہوں کو پیش کیا، جو کہ ملزم ارمغان کے ملازمین ہیں، گواہان نے عدالت میں کئی اہم انکشافات کئے۔
جمعرات کو مصطفیٰ عامر کے اغواء اور قتل کیس کے تفتیشی افسردو گواہان کو بیان ریکارڈ کرانے کیلئے سٹی کورٹ پہنچے، اس دوران ملزمان ارمغان اور شیراز کو بھی ساتھ لایا گیا، تفتیشی افسر نے ملزم ارمغان کے دو ملازمین غلام مصطفیٰ اور ذوہیب کے 164 کے بیانات ریکارڈ کرانے کی درخواست جمع کرا رکھی تھی۔
اس دوران ملزم ارمغان کے وکیل عابد زمان ایڈووکیٹ اور شیراز کے وکیل خرم عباس بھی عدالت میں موجود تھے۔
گواہ غلام مصطفیٰ اپنا بیان قلمبند کرواتے ہوئے بتایا کہ چھ جنوری کو نو بجے رات کو ایک لڑکا آیا تھا، ہم نے دروازہ کھولا، دبلا پتلا لڑکا تھا، لڑکے نے ٹراؤزر پہنا ہوا تھا اور جیکٹ میں تھا، شکل نہیں دیکھی تھی، ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد گالی گلوچ کی آواز آئی، اس کے بعد دو یا تین فائر کی آواز آئی تھی، جس پر ہم دونوں کمرے سے باہر آگئے تھے۔
گواہ کے مطابق ارمغان نے کیمرے میں دیکھ کر ہمیں آواز دے کر بلایا، ارمغان نے کہا ڈرو مت بیٹھو ایسی کوئی بات نہیں، تھوڑی دیر بعد کہا کپڑا اور شاپر لے کر آؤ، ہم کپڑے لے کر گئے اوپر، ساتھ شاپر بھی تھا، بعد میں کہا یہ خون صاف کرو، لڑکے کا ٹراؤزر بھی تھا۔
غلام مصطفیٰ نے بتایا کہ ساتھ میں ایک چشمے والا لڑکا تھا، ہلکی داڑھی تھی، اوپر باس کے ساتھ موجود تھا، باس نے خون صاف کرایا، ایک ٹراؤزر بھی تھا جس پر لال کلر کے پھول بنے ہوئے تھے، باس نے کہا ٹراؤزر تھیلی میں ڈال کر رکھ دو، پھر کہا کہ نیچے جاکر بیٹھ جاؤ۔
گواہ نے بیان دیا کہ جو لڑکا اوپر گیا تھا وہ موجود نہیں تھا، خالی ٹراؤزر تھا، رات ایک بجے کے بعد ہم چاول گرم کر کے کھانا کھانے لگ گئے، جب میں کنڈی لگانے رات ایک بجے گیا تو لڑکے کی گاڑی موجود نہیں تھی جس میں لڑکا آیا تھا۔
منیشات کیس سے جڑے گرفتار ساحر حسن کے مزید انکشافات
مصطفیٰ عامر قتل کیس کی تحقیقات کے دوران منیشات کیس سے جڑے گرفتار ساحر حسن نے اسپیشلائزڈ یونٹ کو اپنے بیان میں کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ ہم خود تعلیمی اداروں میں جا کر منشیات دیتے ہیں، کالج یونیورسٹی کے لڑکے لڑکیاں آن لائن موبائل ایپ سے آرڈر کرتے ہیں۔
ملزم ساحر حسن نے اپنے بیان میں کہا کہ آرڈر کرنے والوں کو مخصوص مقام پر ڈیلیوری دی جاتی ہے، کالج اور یونیورسٹی کے طلبا سے دوستی کرتے ہیں اس کے بعد انہیں ویڈ استعمال کی عادت میں مبتلا کیا جاتا ہے، ابتدا میں ایک یونیورسٹی یا کالج میں چند خریدار ہوتے ہیں لیکن چند ماہ میں ہی ویڈ کے خریداروں کا سرکل بڑھ جاتا ہے۔
Comments are closed on this story.