مصطفیٰ قتل کیس: ملزم ارمغان کے 10 روز سے واش روم نہ جانے دینے کے الزام پر جج کے دلچسپ ریمارکس
کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت میں مصطفیٰ عامر قتل کیس میں ملزمان ارمغان قریشی اور شیراز کے جسمانی ریمانڈ میں 5 دن کی توسیع کردی جبکہ پولیس نے ملزم ارمغان کی فرد گرفتاری اور اسلحہ برآمدگی کی رپورٹ عدالت میں جمع کرادی، جس میں بتایا گیا کہ پولیس چھاپے کے دوران ملزم نے جدید اسلحہ سے فائرنگ کی۔
مصطفی عامر قتل کیس کی سماعت سینٹرل جیل میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں ہوئی، جہاں پولیس نے ملزمان ارمغان اور شیراز کو پیش کیا۔
پولیس نے ملزم ارمغان کی والدہ کو بیٹے ملنے سے روک دیا
عدالت میں کیس کی سماعت کے موقع پر ملزم ارمغان کی والدہ نے اس سے ملنے کی کوشش کی تاہم پولیس نے ملزم کی والدہ کو بیٹے ملنے سے روک دیا اور ہدایت کی کہ سیکیورٹی رسک کی وجہ سے افسران بالا نے ملاقات سے منع کیا ہے۔
دوران سماعت سرکاری وکیل نے کہا کہ ملزمان کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی جائے جبکہ تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ ملزمان نے جس لڑکی پر تشدد کیا اسے تلاش کرلیا ہے،آج لڑکی کا بیان ریکارڈ کرنا ہے، گواہان کے 164 کے بیانات قلم بند کرانے ہیں۔
10 دن باتھ روم نہ جانے والا انسان کھڑا بھی نہیں ہو سکتا، جج کے ریمارکس
ملزمان کے وکیل کی جانب سے پولیس کی جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی مخالفت کی گئی جبکہ ملزم ارمغان کا کہنا تھا کہ مجھے مسلسل اذیت میں رکھا جا رہا ہے، مجھے کھانا نہیں دیا جا رہا، 10 دن سے واش روم نہیں جاسکا ہوں، جس پر عدالت نے کہا یہ ممکن نہیں ہے، 10 دن باتھ روم نہ جانے والا انسان کھڑا بھی نہیں ہو سکتا۔
ارمغان قریشی کے وکیل نے کہا کہ ملزمان یا گواہان کے بیانات قلم بند کرنے سے پہلے ہمیں نوٹس کیا جائے، 4 گھنٹے پولیس مقابلہ چلا، والدہ نے ارمغان کو سرینڈر کرایا ان کا بیان قلم بند کرایا جائے، ارمغان کا میڈیکل چیک اپ کرایا جائے۔
تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ متاثرہ لڑکی کا ڈی این اے کرانا ہے جبکہ سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ پورے ملک میں سنسنی پھیلی ہوئی ہے، ملزمان سے منی لانڈرنگ اور منشیات اسمگلنگ کی تحقیقات کرنی ہیں، ملزم انتہائی شاطر ہے انویسٹی گیشن میں تعاون نہیں کر رہا، جب تک تحقیقات مکمل نہیں ہوتیں ملاقات کی اجازت نہ دی جائے۔
ارمغان کے وکیل کا کہنا تھا کہ ملزم اگر 164 سے انکار کرتا ہے تو جیل کسٹڈی کر دیا جاتا ہے، جس پر عدالت نے کہا کہ جب ملزم اعترافی بیان دیتا ہے تو جیل کسٹڈی ہوتی ہے، جس مجسٹریٹ کے سامنے بیان ہوتا ہے وہ بھی قانونی تقاضے جانتا ہے۔
عدالت نے والدین کو ارمغان سے ملاقات کی اجازت دے دی
عدالت نے والدین کو ارمغان سے ملاقات کی اجازت دے دی، جس پر سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ ملزم کو والدین سے ملاقات کی اجازت نہ دی جائے، لڑائی جھگڑا ہو جاتا ہے۔ اس پر عدالت نے کہا کہ اگر کوئی شور شرابا ہو تو فوری آگاہ کیا جائے۔
بعدازاں عدالت نے مصطفیٰ قتل کیس کے ملزمان ارمغان قریشی اور شیراز کے جسمانی ریمانڈ میں 5 دن کی توسیع کر دی کرتے ہوئے ملزمان کے میڈیکل چیک اپ کرانے کی ہدایت کر دی۔
ملزم ارمغان کی گرفتاری اور اسلحہ برآمدگی کی رپورٹ عدالت میں جمع
قبل ازیں کراچی کے علاقے ڈیفنس سے اغوا کے بعد قتل ہونے والے مصطفیٰ عامر کے کیس میں پولیس نے ملزم ارمغان کی فرد گرفتاری اور اسلحہ برآمدگی کی رپورٹ انسدادِ دہشت گردی عدالت میں جمع کرادی۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ پولیس چھاپے کے دوران ملزم نے جدید اسلحہ سے فائرنگ کی، مصطفیٰ کی بازیابی کے لیے ارمغان کے گھر پر چھاپا مارا گیا تھا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ پولیس ملزم کے بنگلے پر پہنچی تو اندر موجود شخص نے دروازہ نہیں کھولا، سرکاری موبائل کی ٹکر سے گیٹ کھولا گیا اور پولیس بنگلے میں داخل ہوئی، اوپر کی منزل سے پولیس پر جان سے مارنے کی نیت سے جدید اسلحہ سے فائرنگ ہوئی، فائرنگ سے ڈی ایس پی احسن ذوالفقار اور کانسٹیبل اقبال زخمی ہوئے۔
’ارمغان کے ساتھ مل کر مصطفی کو زندہ جلایا‘، ملزم شیراز نے عدالت میں اعتراف جرم کرلیا
پولیس کی جانب رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ ملزم کو بلند آواز میں سرینڈر کرنے کے لیے کہا جاتا رہا مگر وہ وقفے وقفے سے فائرنگ کرتا رہا، ملزم باز نہیں آیا اور کافی دیر تک پولیس پر فائرنگ کرتا رہا، پولیس نے پیش قدمی کرتے ہوئے ملزم کو گھیرے میں لے کر گرفتار کیا، ملزم سے جدید اسلحہ بھی برآمد کیا گیا تھا۔
کیس کا پس منظر
یاد رہے کہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) سی آئی اے مقدس حیدر نے 14 فروری کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مقتول مصطفیٰ عامر 6 جنوری کو ڈیفنس کے علاقے سے لاپتا ہوا تھا، مقتول کی والدہ نے اگلے روز بیٹے کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا تھا۔
25 جنوری کو مصطفیٰ کی والدہ کو امریکی نمبر سے 2 کروڑ روپے تاوان کی کال موصول ہونے کے بعد مقدمے میں اغوا برائے تاوان کی دفعات شامل کی گئی تھیں اور مقدمہ اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) منتقل کیا گیا تھا۔
بعد ازاں، اے وی سی سی نے 9 فروری کو ڈیفنس میں واقع ملزم کی رہائشگاہ پر چھاپہ مارا تھا تاہم ملزم نے پولیس پر فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں ڈی ایس پی اے وی سی سی احسن ذوالفقار اور ان کا محافظ زخمی ہوگیا تھا۔
ملزم کو کئی گھنٹے کی کوششوں کے بعد گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد پولیس نے جسمانی ریمانڈ لینے کے لیے گرفتار ملزم کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا تو جج نے ملزم کا ریمانڈ دینے کے بجائے اسے عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا، جس کے خلاف سندھ پولیس نے عدالت عالیہ میں اپیل دائر کی تھی۔
ملزم نے ابتدائی تفیش میں دعویٰ کیا تھا کہ اس نے مصطفیٰ عامر کو قتل کرنے کے بعد لاش ملیر کے علاقے میں پھینک دی تھی لیکن بعدازاں اپنے بیان سے منحرف ہوگیا تھا، بعدازاں اے وی سی سی اور سٹیزنز پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) اور وفاقی حساس ادارے کی مشترکہ کوششوں سے ملزم کے دوست شیراز کی گرفتاری عمل میں آئی تھی جس نے اعتراف کیا تھا کہ ارمغان نے اس کی ملی بھگت سے مصطفیٰ عامر کو 6 جنوری کو گھر میں تشدد کا نشانہ بناکر قتل کرنے کے بعد لاش اسی کی گاڑی میں حب لے جانے کے بعد نذرآتش کردی تھی۔
ملزم شیراز کی نشاندہی کے بعد پولیس نے مقتول کی جلی ہوئی گاڑی حب سے برآمد کرلی تھی جبکہ حب پولیس مقتول کی لاش کو پہلے ہی برآمد کرکے رفاہی ادارے کے حوالے کرچکی تھی جسے امانتاً دفن کردیا گیا تھا، مصطفیٰ کی لاش ملنے کے بعد مقدمے میں قتل کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے مصطفی عامر قتل کیس کا نوٹس لے لیا
تفتیشی افسران کے مطابق حب پولیس نے ڈی این اے نمونے لینے کے بعد لاش ایدھی کے حوالے کی تھی، گرفتار کیا گیا دوسرا ملزم شیراز ارمغان کے پاس کام کرتا تھا، قتل کے منصوبے اور لاش چھپانےکی منصوبہ بندی میں شیراز شامل تھا۔
کراچی پولیس کا کہنا ہے کہ مقتول مصطفیٰ کا اصل موبائل فون تاحال نہیں ملا ہے، ملزم ارمغان سے لڑکی کی تفصیلات، آلہ قتل اور موبائل فون کے حوالے سے مزید تفصیلات حاصل کی جائیں گی۔
بعدازاں پولیس نے لاش کے پوسٹ مارٹم کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں قبر کشائی کی درخواست دی تھی جس پر گزشتہ روز عدالت نے قبر کشائی کا حکم جاری کردیا تھا۔
’ارمغان نے لڑکی کی وجہ سے مجھے دھمکی دی تھی‘، ایک اور قریبی دوست کا انکشاف
دریں اثنا، 15 فروری کو ڈان نیوز کی رپورٹ میں تفتیشی حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑے کی وجہ ایک لڑکی تھی جو 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی تھی، لڑکی سے انٹرپول کے ذریعے رابطے کی کوشش کی جارہی ہے۔
تفتیشی حکام نے بتایا کہ ملزم ارمغان اور مقتول مصطفیٰ دونوں دوست تھے، لڑکی پر مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑا نیو ایئر نائٹ پر شروع ہوا تھا، تلخ کلامی کے بعد ارمغان نے مصطفیٰ اور لڑکی کو مارنے کی دھمکی دی تھی۔
پولیس حکام نے بتایا کہ ارمغان نے 6 جنوری کو مصطفیٰ کو بلایا اور تشدد کا نشانہ بنایا، لڑکی 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی جس سے انٹرپول کے ذریعے رابطہ کیا جارہا ہے، کیس کے لیے لڑکی کا بیان ضروری ہے۔
Comments are closed on this story.