Aaj News

ہفتہ, مارچ 22, 2025  
21 Ramadan 1446  

کابل میں 90 ہزار سی سی ٹی وی کیمروں سے نگرانی، طالبان کا سکیورٹی سسٹم فعال

صاف موسم میں ہم کئی کلومیٹر دور تک افراد پر زوم کر کے جائزہ لے سکتے ہیں، خالد زادران
شائع 27 فروری 2025 10:38am
تصویر: آمو ٹی وی
تصویر: آمو ٹی وی

کابل میں ایک مصروف کنٹرول سینٹر کے اندر درجنوں ٹی وی اسکرینوں کے درمیان، طالبان کی پولیس فورس نے اپنے 90 ہزار سی سی ٹی وی کیمروں سے لیس نئے نیٹ ورک کی نمائش کی، جس کے ذریعے لاکھوں شہریوں کی روزمرہ زندگی پر نظر رکھی جا رہی ہے۔

بی بی سی کے مطابق طالبان پولیس کے ترجمان خالد زادران نے ایک اسکرین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’ہم یہاں سے پورے کابل شہر کی نگرانی کرتے ہیں۔‘

طالبان حکام کا کہنا ہے کہ یہ نگرانی جرائم کی روک تھام کے لیے کی جا رہی ہے، لیکن بی بی سی کے مطابق ناقدین کو خدشہ ہے کہ یہ نظام مخالفت کو دبانے اور طالبان کے سخت شرعی قوانین کے نفاذ کے لیے استعمال ہوگا۔

برطانوی خبر رساں ادارہ اس نظام کو براہ راست دیکھنے والی پہلی بین الاقوامی میڈیا تنظیم ہے۔ جس نے نوٹ کیا کہ کنٹرول روم میں بیٹھے پولیس اہلکار لائیو اسٹریمنگ کے ذریعے کابل کے 60 لاکھ شہریوں کی نگرانی کر رہے ہیں، جہاں گاڑیوں کی نمبر پلیٹوں سے لے کر چہرے کے تاثرات تک سب کچھ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔

خالد زدران کہتے ہیں کہ، ’اگر ہمیں کسی علاقے میں مشکوک سرگرمی یا غیر معمولی اجتماع نظر آئے تو ہم فوری طور پر مقامی پولیس کو اطلاع دیتے ہیں، جو فوراً موقع پر پہنچ کر تحقیقات کرتی ہے۔‘

طالبان کے اقتدار میں آنے سے پہلے کابل میں روزانہ دہشت گرد حملے، اغوا اور جرائم عام تھے۔ جب 2021 میں طالبان نے دوبارہ اقتدار سنبھالا تو انہوں نے جرائم کے خلاف سخت کارروائی کا وعدہ کیا تھا۔

اس وعدے کے تحت، طالبان نے نگرانی کے لیے کیمروں کی تعداد 850 سے بڑھا کر 90 ہزار کر دی ہے۔

یہ نظام جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہے، جس میں چہرے کی شناخت کا فیچر بھی شامل ہے۔ اس نظام کے ذریعے لوگوں کو عمر، جنس، داڑھی یا ماسک پہننے جیسے عوامل کی بنیاد پر شناخت کیا جاتا ہے۔

خالد زادران بتاتے ہیں کہ ’صاف موسم میں ہم کئی کلومیٹر دور تک افراد پر زوم کر کے ان کا جائزہ لے سکتے ہیں‘۔

یہ نظام صرف شہریوں کی نگرانی تک محدود نہیں، بلکہ طالبان اپنے اہلکاروں پر بھی نظر رکھ رہے ہیں۔ ایک چوکی پر جب طالبان اہلکار ایک گاڑی کی تلاشی لے رہے تھے، تو کنٹرول روم میں بیٹھے آپریٹرز نے گاڑی کی دھندلی تصاویر کو زوم کر کے واضح کیا تاکہ تفصیلات دیکھی جا سکیں۔

افغان وزارت داخلہ کے مطابق، ’یہ کیمرے سکیورٹی بہتر بنانے، جرائم کی روک تھام اور مجرموں کو جلد پکڑنے میں مدد دے رہے ہیں۔‘

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، 2023 سے 2024 کے دوران جرائم میں 30 فیصد کمی آئی ہے، لیکن ان اعداد و شمار کی آزادانہ تصدیق ممکن نہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس نظام پر شدید تحفظات ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق، ’قومی سلامتی کے نام پر کیمرے لگانے سے طالبان کو اپنے سخت گیر قوانین کے نفاذ میں مدد ملے گی، خاص طور پر خواتین کے حقوق پر مزید قدغن لگ سکتی ہے۔‘

بی بی سی کا کہنا ہے کہ طالبان حکومت نے اس نگرانی کے نظام کا ایک حصہ عام شہریوں سے زبردستی چندہ وصول کر کے مکمل کیا ہے۔

کابل کے مرکزی علاقے میں رہنے والی شیلا نے بی بی سی کو بتایا کہ، ’ہر گھر سے ہزاروں افغانی وصول کیے گئے، اور اگر کوئی ادائیگی سے انکار کرتا تو اسے پانی اور بجلی منقطع کرنے کی دھمکی دی جاتی۔‘

شیلا کے مطابق، ’ہمیں قرض لینا پڑا تاکہ ان کیمروں کی قیمت ادا کر سکیں۔ لوگ بھوک سے مر رہے ہیں، ان کے لیے یہ کیمرے کس کام کے؟‘

طالبان حکام کا دعویٰ ہے کہ چندہ دینا ”رضاکارانہ“ عمل تھا، لیکن شہری اس دعوے کو مسترد کرتے ہیں۔

طالبان نے یہ جدید نگرانی کا نظام چین سے حاصل کیا ہے۔ بی بی سی کو کنٹرول روم میں جو مانیٹر اور برانڈنگ دکھائی دی، اس پر ”دہوا“ (Dahua) نامی چینی کمپنی کا نام نمایاں تھا، جو چینی حکومت سے منسلک ہے۔

قبل ازیں، اطلاعات تھیں کہ طالبان ”ہواوے“ سے نگرانی کے آلات خریدنے کی کوشش کر رہے تھے، تاہم کمپنی نے اس کی تردید کی۔ طالبان نے یہ واضح نہیں کیا کہ یہ آلات کہاں سے اور کس معاہدے کے تحت حاصل کیے گئے ہیں۔

Taliban Government

cctv cameras

afgan taliban

Aghanistan