کراچی ڈیفنس کے رہائشیوں کا حکام سے ارمغان کا بنگلہ خالی کرانے کا مطالبہ
کراچی ڈیفنس کے رہائشیوں نے حکام سے ارمغان کا بنگلہ خالی کرانے کا مطالبہ کر دیا۔۔ ڈی آئی جی ساؤتھ اسد رضا کا کہنا ہے پولیس دیگر اداروں کی مدد سے ارمغان کے زیر استعمال رہنے والے بنگلے کو خالی کروائے گی۔
کراچی میں مصطفی عامر قتل کے بعد ڈیفنس کے رہائشیوں نے اعلی حکام کو خط لکھ دیا ہے۔
ملزم ارمغان کی حرکتوں سے تنگ ڈیفنس کے رہاشیوں نے دونوں باپ بیٹوں کو علاقے سے نکالنے کے لئے متعلقہ حکام کو خط لکھا جس میں کہا گیا ہے کہ حالیہ واقعات کی وجہ سے رہائشیوں کو سیکیورٹی خدشات لاحق ہوگئے ہیں۔
ڈیفینس کے رہائشیوں کی جانب سے ڈی ایچ اے رولز کی خلاف ورزی پرارمغان کے والد کامران قریشی کیخلاف بھی کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
خط میں کہا گیا کہ ارمغان کے زیر استعمال بنگلہ نمبر35 کے اصل مالک کو سامنے لا کرامغان کے والد کامران سے بنگلے کو خالی کرایاجائے۔
ملزم شیراز نے انٹیروگیشن رپورٹ میں مصطفی عامر کے قتل کا اعتراف کرلیا
رہائشیوں نے خط میں لکھا کہ بنگلے سے متعدد مرتبہ ہوائی فائرنگ کے واقعات پیش آئے، جسکی وجہ سے علاقے میں خوف کی فضا پیداہوئی، جبکہ 2023 سے 2024 کے دوران بنگلے میں غیر قانونی طور پر شیروں کو بھی رکھا گیا۔
خط کے مطابق ارمغان قریشی 100 پرائیوٹ سیکیورٹی گارڈ رکھتا تھا، ارمغان، گارڈزکے ذریعے خواتین، گھریلو ملازمین کو ہراساں کرنے میں بھی ملوث ہے۔ 8 فروری کوبنگلے میں ارمغان اور پولیس کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا،جس کی وجہ سے دیگر رہائشی گھروں میں محصورہوگئے تھے۔
ڈی آئی جی ساوتھ اسد رضا کا مؤقف
مصطفی قتل کیس کے بعد علاقہ مکینوں کی جانب سے پولیس کولکھے گئے خط کے بعد ڈی آئی جی ساوتھ اسدرضا کا موقف بھی سامنے آگیا۔
ڈی آئی جی ساوتھ اسد رضا کے مطابق21 فروری کو رہائشیوں کا خط موصول ہواتھا، خط پرمزید اقدامات شروع کردیے ہیں، پولیس دیگر اداروں کی مدد سے ارمغان کے زیراستعمال بنگلےکوخالی کرائےگی۔
اسد رضا کا کہنا ہے کہ ڈی ایچ اے رولزکی خلاف ورزی، متعلقہ اداروں سے مشاورت کے بعد ایکشن لیں گے۔
مصطفی قتل کیس: ملزم ارمغان 8 سال سے منشیات منگوا کر نشہ کررہا تھا، اہم انکشاف
دوسری جانب مصطفیٰ قتل کیس میں گذری پولیس کے اے ایس آئی ندیم پرارمغان کی سہولت کاری کے الزام اورپوچھ گچھ سے متعلق سی آئی اے پولیس نے گذشتہ روزاے ایس آئی ندیم کوپوچھ گچھ کےبعدچھوڑدیا۔
ذرائع سی آئی اے کا کہنا ہے کہ دوبارہ ضرورت پڑی تو اے ایس آئی کو پوچھ گچھ کیلئےطلب کریں گے، دوران تفتیش اےایس آئی ندیم نے تفتیش کاروں کوبیان دیا کہ ملزم ارمغان پرمقدمات تھے جن میں وہ ضمانت کروا چک اتھا
اے ایس آئی ندیم کا مزید کہنا تھا کہ ارمغان پرکیسزکی تفتیش کے سلسلے میں اس سے رابطہ ہواتھا، میں کسی بھی قسم کی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہوں۔
کیس کا پس منظر
یاد رہے کہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) سی آئی اے مقدس حیدر نے 14 فروری کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مقتول مصطفیٰ عامر 6 جنوری کو ڈیفنس کے علاقے سے لاپتا ہوا تھا، مقتول کی والدہ نے اگلے روز بیٹے کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا تھا۔
25 جنوری کو مصطفیٰ کی والدہ کو امریکی نمبر سے 2 کروڑ روپے تاوان کی کال موصول ہونے کے بعد مقدمے میں اغوا برائے تاوان کی دفعات شامل کی گئی تھیں اور مقدمہ اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) منتقل کیا گیا تھا۔
بعد ازاں، اے وی سی سی نے 9 فروری کو ڈیفنس میں واقع ملزم کی رہائشگاہ پر چھاپہ مارا تھا تاہم ملزم نے پولیس پر فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں ڈی ایس پی اے وی سی سی احسن ذوالفقار اور ان کا محافظ زخمی ہوگیا تھا۔
ملزم کو کئی گھنٹے کی کوششوں کے بعد گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد پولیس نے جسمانی ریمانڈ لینے کے لیے گرفتار ملزم کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا تو جج نے ملزم کا ریمانڈ دینے کے بجائے اسے عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا، جس کے خلاف سندھ پولیس نے عدالت عالیہ میں اپیل دائر کی تھی۔
ملزم نے ابتدائی تفیش میں دعویٰ کیا تھا کہ اس نے مصطفیٰ عامر کو قتل کرنے کے بعد لاش ملیر کے علاقے میں پھینک دی تھی لیکن بعدازاں اپنے بیان سے منحرف ہوگیا تھا، بعدازاں اے وی سی سی اور سٹیزنز پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) اور وفاقی حساس ادارے کی مشترکہ کوششوں سے ملزم کے دوست شیراز کی گرفتاری عمل میں آئی تھی جس نے اعتراف کیا تھا کہ ارمغان نے اس کی ملی بھگت سے مصطفیٰ عامر کو 6 جنوری کو گھر میں تشدد کا نشانہ بناکر قتل کرنے کے بعد لاش اسی کی گاڑی میں حب لے جانے کے بعد نذرآتش کردی تھی۔
ملزم شیراز کی نشاندہی کے بعد پولیس نے مقتول کی جلی ہوئی گاڑی حب سے برآمد کرلی تھی جبکہ حب پولیس مقتول کی لاش کو پہلے ہی برآمد کرکے رفاہی ادارے کے حوالے کرچکی تھی جسے امانتاً دفن کردیا گیا تھا، مصطفیٰ کی لاش ملنے کے بعد مقدمے میں قتل کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
تفتیشی افسران کے مطابق حب پولیس نے ڈی این اے نمونے لینے کے بعد لاش ایدھی کے حوالے کی تھی، گرفتار کیا گیا دوسرا ملزم شیراز ارمغان کے پاس کام کرتا تھا، قتل کے منصوبے اور لاش چھپانےکی منصوبہ بندی میں شیراز شامل تھا۔
کراچی پولیس کا کہنا ہے کہ مقتول مصطفیٰ کا اصل موبائل فون تاحال نہیں ملا ہے، ملزم ارمغان سے لڑکی کی تفصیلات، آلہ قتل اور موبائل فون کے حوالے سے مزید تفصیلات حاصل کی جائیں گی۔
بعدازاں پولیس نے لاش کے پوسٹ مارٹم کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں قبر کشائی کی درخواست دی تھی جس پر گزشتہ روز عدالت نے قبر کشائی کا حکم جاری کردیا تھا۔
دریں اثنا، 15 فروری کو ڈان نیوز کی رپورٹ میں تفتیشی حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑے کی وجہ ایک لڑکی تھی جو 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی تھی، لڑکی سے انٹرپول کے ذریعے رابطے کی کوشش کی جارہی ہے۔
تفتیشی حکام نے بتایا کہ ملزم ارمغان اور مقتول مصطفیٰ دونوں دوست تھے، لڑکی پر مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑا نیو ایئر نائٹ پر شروع ہوا تھا، تلخ کلامی کے بعد ارمغان نے مصطفیٰ اور لڑکی کو مارنے کی دھمکی دی تھی۔
پولیس حکام نے بتایا کہ ارمغان نے 6 جنوری کو مصطفیٰ کو بلایا اور تشدد کا نشانہ بنایا، لڑکی 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی جس سے انٹرپول کے ذریعے رابطہ کیا جارہا ہے، کیس کے لیے لڑکی کا بیان ضروری ہے۔
Comments are closed on this story.