مصطفیٰ قتل کیس میں سابق ایس ایس پی کے نئے انکشافات، کئی ملزمان کے فرار کا دعویٰ
کراچی کے علاقے ڈیفنس سے اغوا کے بعد قتل ہونے والے مصطفی عامر کے کیس میں مزید سنسنی خیز انکشافات ہوئے ہیں، سابق ایس ایس پی نیاز احمد کھوسہ نے دعوی کیا ہے کہ پولیس کی ناقص تفتیش کے باعث مصطفی قتل کیس کے کئی اہم ملزمان ملک سے فرار ہوچکے ہیں۔
سابق ایس ایس پی نیاز احمد کھوسہ نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ پر اپنے ہولناک انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ ارمغان مصطفی کو جلانے کے بعد شیراز کے ساتھ ڈیفنس پہنچا، شیراز کے ساتھ مل کر ساری رات ڈانس پارٹی کی، انٹرنیشنل فاسٹ فوڈ چین سے برگر بھی منگوائے، دونوں نے شراب میں دھت ہوکر لڑکیوں کے ساتھ رقص کیا، دونوں نے ساری رات مصطفٰی کے قتل کا جشن منایا۔
نیاز احمد کھوسہ نے دعوی کیا کہ پولیس کی ناقص تفتیش سے کئی ملزمان دبئی اور قطر فرار ہوچکے ہیں، پولیس نے ارمغان کا بنگلہ کامران قریشی کے حوالے کردیا گیا، ارمغان کا بنگلہ اس کے والد کے حوالے فوری نہیں کرنا چاہیئے تھا۔
سابق پولیس افسر نے یہ بھی بتایا کہ تمام شواہد ختم ہوگئے تو مصطفی قتل کی تفتیش کرنا آسان نہیں ہوگا، ارمغان نے پولیس مقابلے کے دوران ہی اکاونٹ سے رقم منتقل کردی اور این وی آر سے ریکارڈنگ بھی ڈیلیٹ کردی۔
سابق ایس ایس پی نے کراچی اور بلوچستان کے پولیس افسران کا نام لیتے ہوئے ان سے شفاف تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا۔
مصطفی قتل کیس میں ایک اورپیش رفت، اے ایس آئی زیرحراست
مصطفی قتل کیس میں ایک اور پیش رفت سامنے آئی، گزری تھانے کے اے ایس آئی کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔
ڈی آئی جی سی آئی اے کے مطابق پولیس افسر ملزم ارمغان سے رابطے میں تھا اور دیگر کاموں میں اس کا سہولت کار رہا ہے، ملزم ارمغان نے لڑکی زوما کو تشدد کے بعد پولیس افسر سے زخمی لڑکی کو لے جانے کے لیے رابط کیا تھا۔
سی آئی اے پولیس نے بتایا کہ حراست میں لیے جانے والے پولیس افسر سے مزید تفتیش کی جا رہی ہے۔
مقتول مصطفی عامرکی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل
مقتول مصطفی عامرکی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہیں جس میں مصطفی عامر، خوشگوار موڈ میں دوستوں کے ساتھ نظر آرہے ہیں۔

یہ ویڈیوز اب مصطفی عامر کے دوست سوشل میڈیا پر رکھ رہے ہیں اور مصطفی عامر کو بہت یاد کررہے ہیں۔ ایک ویڈیو میں مصطفٰی عامر اپنے گھر والوں کے ساتھ خوشگوارموڈ میں بھی دکھائی دیتے ہیں۔
کیس کا پس منظر
یاد رہے کہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) سی آئی اے مقدس حیدر نے 14 فروری کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مقتول مصطفیٰ عامر 6 جنوری کو ڈیفنس کے علاقے سے لاپتا ہوا تھا، مقتول کی والدہ نے اگلے روز بیٹے کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا تھا۔
25 جنوری کو مصطفیٰ کی والدہ کو امریکی نمبر سے 2 کروڑ روپے تاوان کی کال موصول ہونے کے بعد مقدمے میں اغوا برائے تاوان کی دفعات شامل کی گئی تھیں اور مقدمہ اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) منتقل کیا گیا تھا۔
بعد ازاں، اے وی سی سی نے 9 فروری کو ڈیفنس میں واقع ملزم کی رہائشگاہ پر چھاپہ مارا تھا تاہم ملزم نے پولیس پر فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں ڈی ایس پی اے وی سی سی احسن ذوالفقار اور ان کا محافظ زخمی ہوگیا تھا۔
ملزم کو کئی گھنٹے کی کوششوں کے بعد گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد پولیس نے جسمانی ریمانڈ لینے کے لیے گرفتار ملزم کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا تو جج نے ملزم کا ریمانڈ دینے کے بجائے اسے عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا، جس کے خلاف سندھ پولیس نے عدالت عالیہ میں اپیل دائر کی تھی۔
ملزم نے ابتدائی تفیش میں دعویٰ کیا تھا کہ اس نے مصطفیٰ عامر کو قتل کرنے کے بعد لاش ملیر کے علاقے میں پھینک دی تھی لیکن بعدازاں اپنے بیان سے منحرف ہوگیا تھا، بعدازاں اے وی سی سی اور سٹیزنز پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) اور وفاقی حساس ادارے کی مشترکہ کوششوں سے ملزم کے دوست شیراز کی گرفتاری عمل میں آئی تھی جس نے اعتراف کیا تھا کہ ارمغان نے اس کی ملی بھگت سے مصطفیٰ عامر کو 6 جنوری کو گھر میں تشدد کا نشانہ بناکر قتل کرنے کے بعد لاش اسی کی گاڑی میں حب لے جانے کے بعد نذرآتش کردی تھی۔
ملزم شیراز کی نشاندہی کے بعد پولیس نے مقتول کی جلی ہوئی گاڑی حب سے برآمد کرلی تھی جبکہ حب پولیس مقتول کی لاش کو پہلے ہی برآمد کرکے رفاہی ادارے کے حوالے کرچکی تھی جسے امانتاً دفن کردیا گیا تھا، مصطفیٰ کی لاش ملنے کے بعد مقدمے میں قتل کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
تفتیشی افسران کے مطابق حب پولیس نے ڈی این اے نمونے لینے کے بعد لاش ایدھی کے حوالے کی تھی، گرفتار کیا گیا دوسرا ملزم شیراز ارمغان کے پاس کام کرتا تھا، قتل کے منصوبے اور لاش چھپانےکی منصوبہ بندی میں شیراز شامل تھا۔
مصطفیٰ عامر قتل کیس: ارمغان کے ہاتھوں تشدد کا شکار لڑکی نے پولیس کو بیان دے دیا
کراچی پولیس کا کہنا ہے کہ مقتول مصطفیٰ کا اصل موبائل فون تاحال نہیں ملا ہے، ملزم ارمغان سے لڑکی کی تفصیلات، آلہ قتل اور موبائل فون کے حوالے سے مزید تفصیلات حاصل کی جائیں گی۔
بعدازاں پولیس نے لاش کے پوسٹ مارٹم کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں قبر کشائی کی درخواست دی تھی جس پر گزشتہ روز عدالت نے قبر کشائی کا حکم جاری کردیا تھا۔
دریں اثنا، 15 فروری کو ڈان نیوز کی رپورٹ میں تفتیشی حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑے کی وجہ ایک لڑکی تھی جو 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی تھی، لڑکی سے انٹرپول کے ذریعے رابطے کی کوشش کی جارہی ہے۔
تفتیشی حکام نے بتایا کہ ملزم ارمغان اور مقتول مصطفیٰ دونوں دوست تھے، لڑکی پر مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑا نیو ایئر نائٹ پر شروع ہوا تھا، تلخ کلامی کے بعد ارمغان نے مصطفیٰ اور لڑکی کو مارنے کی دھمکی دی تھی۔
’لڑکی سے ناراضگی نے ارمغان کو پاگل کر دیا‘، مصطفیٰ کے قتل میں شریک ملزم شیراز کے نئے انکشافات
پولیس حکام نے بتایا کہ ارمغان نے 6 جنوری کو مصطفیٰ کو بلایا اور تشدد کا نشانہ بنایا، لڑکی 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی جس سے انٹرپول کے ذریعے رابطہ کیا جارہا ہے، کیس کے لیے لڑکی کا بیان ضروری ہے۔
Comments are closed on this story.