بھارت میں دلت لڑکی کے ساتھ سالوں تک 60 افراد کی زیادتی، قریبی رشتہ دار بھی شامل
بھارت میں دلت برادری سے تعلق رکھنے والی ایک اٹھارہ سالہ لڑکی کے ساتھ سالوں تک اجتماعی زیادتی نے ہلچل مچا دی ہے۔ یہ واقعہ ریاست کیرالہ میں پیش آیا، جہاں پولیس کے مطابق متاثرہ لڑکی کو پانچ سال تک مسلسل جنسی زیادتی اور بلیک میلنگ کا سامنا کرنا پڑا۔
امریکی خبر رساں ادارے ”سی این این“ کے مطابق پولیس نے بتایا کہ یہ بھیانک کہانی اس وقت سامنے آئی جب لڑکی نے اپنے کالج میں ایک کونسلر سے بات کی اور انکشاف کیا کہ اسے گزشتہ پانچ سال کے دوران درجنوں افراد نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔
کیرالہ پولیس کی ڈپٹی انسپکٹر جنرل اجیتا بیگم نے سی این این کو بتایا کہ اس کیس میں اب تک 58 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے، جبکہ دو ملزمان ملک سے فرار ہو چکے ہیں۔
کیس کی تفصیلات کے مطابق، گرفتار شدگان میں لڑکی کے پڑوسی، رشتہ دار، اسکول کے ساتھی اور دیگر شامل ہیں۔ کچھ ملزمان نابالغ جبکہ بعض کی عمر 40 سال سے زائد ہے۔
تاحال کسی ملزم پر فرد جرم عائد نہیں کی گئی اور نہ ہی کسی نے الزامات کے خلاف عوامی سطح پر کوئی بیان دیا ہے۔
استاد کا تھپڑ، 8ویں جماعت کے طالب علم نے اسکول کی عمارت سے چھلانگ لگا کر خودکشی
بھارت میں خواتین کے خلاف تشدد اور دلت برادری کی مظلومیت
بھارت میں خواتین کے خلاف جنسی تشدد ایک سنگین مسئلہ ہے، مگر کیرالہ میں اس واقعے پر وہ غصہ اور احتجاج دیکھنے میں نہیں آیا جو کولکتہ میں ایک خاتون ڈاکٹر کے ساتھ زیادتی اور قتل کے بعد دیکھا گیا تھا۔
سی این این کے مطابق ماہرین اور سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ متاثرہ لڑکی دلت برادری سے تعلق رکھتی ہے، جو بھارت کے ہندو جاتی (ذات پات) نظام کے سب سے نچلے درجے پر سمجھی جاتی ہے۔
بھارت میں دلتوں کو بھارت میں صدیوں سے مظلوم رکھا گیا ہے۔ انہیں مندروں میں داخلے کی اجازت نہیں دی جاتی، اونچی ذات والوں سے الگ بستیوں میں رکھا جاتا ہے، اور صفائی و دیگر ناپسندیدہ کاموں تک محدود کیا جاتا ہے۔
بلیک میلنگ، دھمکیاں اور جنسی استحصال
پولیس کے مطابق اس ظلم کی ابتدا پانچ سال قبل اس وقت ہوئی جب ایک نوجوان نے لڑکی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا اور اس کی ویڈیوز بنائیں۔ ان ویڈیوز کو مبینہ طور پر لڑکی کو بلیک میل کرنے اور مزید افراد کے ہاتھوں اس کا استحصال کروانے کے لیے استعمال کیا گیا۔
بعض ملزمان نے لڑکی سے شادی کا وعدہ کر کے اسے دھوکہ دیا، جبکہ ایک نے اسے قتل کرنے کی دھمکی دی تاکہ وہ خاموش رہے۔
پولیس کے مطابق بعض ملزمان اجنبی تھے، جو دوسرے شہروں سے آکر اس جرم میں ملوث ہوئے۔
قتل یا خودکشی، 3 خواتین کی موت پولیس کے لئے معمہ بن گئی
گاؤں میں خاموشی، لڑکی پر الزام
پولیس کا کہنا ہے کہ متاثرہ لڑکی کے والدین مزدور تھے اور دیر تک کام میں مصروف رہتے تھے، اس لیے وہ اس ظلم سے بے خبر رہے۔
جنوری میں جب یہ معاملہ سامنے آیا تو مقامی میڈیا کے مطابق کچھ خواتین نے لڑکی کے خلاف ہی بات کی اور اس کے لباس اور طرز زندگی پر سوالات اٹھائے۔ بعض نے متاثرہ لڑکی کی ماں پر بھی الزام عائد کیا کہ اس نے بیٹی پر مناسب نظر نہیں رکھی۔
”اپنے ہی گاؤں میں درندے“
کیرالہ میں دلت برادری کے افراد زیادہ تر سرکاری طور پر مختص کردہ ”کالونیوں“ میں رہتے ہیں، جہاں بنیادی سہولیات کی کمی اور بدترین حالات میں زندگی گزارنا معمول ہے۔ یہ تنگ بستیاں خواتین اور لڑکیوں کے لیے مزید خطرناک ثابت ہوتی ہیں، کیونکہ ان کے پاس نہ تو پرائیویسی ہوتی ہے اور نہ ہی وسائل۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے قریبی سماجی ڈھانچے میں اکثر مظلوم خاموش رہنے پر مجبور ہوتے ہیں، کیونکہ ان کے خلاف جرم کرنے والے ان کے اپنے رشتہ دار، دوست یا پڑوسی ہو سکتے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کیرالہ میں 98 فیصد ریپ کیسز میں متاثرہ لڑکی ملزم کو پہلے سے جانتی تھی۔
بھارت میں دلت خواتین کے خلاف بڑھتے جرائم
سین این این نے رپورٹ کیا کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2022 میں بھارت میں دلت خواتین کے خلاف ریپ کے 4 پزار 241 واقعات رپورٹ ہوئے، یعنی روزانہ 10 سے زائد کیسز۔ مجموعی طور پر 31 ہزار 500 سے زائد ریپ کے کیسز درج ہوئے۔
سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ اصل تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے، کیونکہ دلت برادری کے افراد کے لیے پولیس میں شکایت درج کروانا بھی آسان نہیں۔
کیرالہ پولیس کے مطابق اس کیس میں 16 ملزمان اعلیٰ ذاتوں سے تعلق رکھتے ہیں، جنہیں دلتوں کے خلاف جرائم پر سخت سزائیں دینے والے قوانین کے تحت سزا دی جا سکتی ہے۔
سماجی تنظیم ”ایکوالٹی ناؤ“ کی 2020 کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں اونچی ذات کے افراد اکثر دلت خواتین کو دبانے کے لیے جنسی تشدد کا استعمال کرتے ہیں۔
انصاف کا طویل انتظار
بھارت میں ریپ کے کیسز میں سزا کی شرح انتہائی کم ہے۔ 2022 میں درج ہونے والے ریپ کیسز میں سے صرف 27 فیصد میں ہی مجرموں کو سزا دی گئی۔
رپورٹ کے مطابق متاثرہ لڑکی اس وقت ایک سرکاری پناہ گاہ میں رہ رہی ہے، جہاں اسے نفسیاتی اور قانونی مدد فراہم کی جا رہی ہے۔ لڑکی کی ماں کو بھی حفاظتی اقدامات کے تحت پناہ فراہم کرنے کی پیشکش کی گئی ہے۔
سی این این کے مطابق، یہ کیس کئی سال تک عدالتوں میں چل سکتا ہے، مگر دلت سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ کم از کم اس معاملے کی رپورٹنگ ہونا ہی ایک بڑی کامیابی ہے، کیونکہ دلت خواتین کے خلاف بے شمار جرائم رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔
Comments are closed on this story.