Aaj News

بدھ, مارچ 26, 2025  
25 Ramadan 1446  

مارشا، انجلینا کے بعد اب زوما: مصطفیٰ عامر قتل کیس میں تیسری لڑکی کا نام سامنے آگیا

موجود دو نمونوں سے ایک نامعلوم خاتون کا ڈی این اے بھی ملا ہے، تفتیشی افسر
شائع 22 فروری 2025 03:49pm

کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت میں مصطفیٰ عامر کے اغواء اور قتل کیس کی سماعت کے دوران تفتیشی افسر کی جانب سے اہم انکشافات سامنے آئے ہیں۔

تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ جائے وقوعہ پر کارپٹ پر لگے خون کے ایک نمونے کا ڈی این اے مدعیہ مقدمہ سے میچ کر گیا ہے، جبکہ ملزم ارمغان کے کمرے کے کارپٹ پر موجود دو نمونوں سے ایک نامعلوم خاتون کا ڈی این اے ملا ہے۔

ملزمان نے دوران انٹروگیشن بتایا کہ وقوعے سے ایک روز قبل زوما نامی لڑکی کو بھی اسی کمرے میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ تفتیشی افسر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ زوما نامی لڑکی کا پتہ لگانے کے لیے ملزمان کی نشاندہی ضروری ہے، تاکہ اس کا بلڈ سیمپل لے کر ڈی این اے ٹیسٹ کیا جا سکے۔

خیال رہے کہ اس سے قبل کیس میں مارشا اور انجلینا نامی دو لڑکیوں کا نام سامنے آچکا ہے۔

مزید تفتیش میں یہ بات سامنے آئی کہ ملزم ارمغان بوٹ بیسن، کلفٹن، درخشان اور ساحل تھانے میں درج متعدد مقدمات میں مفرور ہے۔ تفتیشی افسر نے عدالت سے درخواست کی کہ ملزم کے خلاف ان مقدمات میں بھی کارروائی کی جائے۔

تفتیشی افسر نے بتایا کہ ملزم ارمغان غیر قانونی کال سینٹر اور وئیر ہاؤس چلا رہا تھا، جبکہ اس کے دیگر ساتھیوں، جن میں نعمان سمیت دیگر افراد شامل ہیں، کی تلاش جاری ہے۔ اس کے علاوہ، ملزم ارمغان کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزامات کی بھی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

مصطفیٰ عامر اغواء و قتل کیس کا پس منظر

یاد رہے کہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) سی آئی اے مقدس حیدر نے 14 فروری کو پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ مقتول مصطفیٰ عامر 6 جنوری کو ڈیفنس کے علاقے سے لاپتا ہوا تھا، اور اس کی والدہ نے اگلے روز بیٹے کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروائی تھی۔

25 جنوری کو مقتول کی والدہ کو ایک امریکی نمبر سے 2 کروڑ روپے تاوان کی کال موصول ہوئی، جس کے بعد مقدمے میں اغوا برائے تاوان کی دفعات شامل کرکے کیس کو اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) کے حوالے کر دیا گیا۔

کراچی میں اغوا اورقتل ہونیوالے مصطفی عامر کی لاش سے متعلق آج نیوز نے تفصیلات حاصل کر لیں

بعد ازاں، 9 فروری کو اے وی سی سی نے ڈیفنس میں واقع ملزم کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا، تاہم ملزم نے پولیس پر فائرنگ کر دی، جس سے ڈی ایس پی اے وی سی سی احسن ذوالفقار اور ان کا محافظ زخمی ہو گئے۔ کئی گھنٹوں کی کوشش کے بعد ملزم کو گرفتار کیا گیا۔ پولیس نے ملزم کا جسمانی ریمانڈ لینے کے لیے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا، لیکن جج نے ملزم کو عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا، جس کے خلاف سندھ پولیس نے عدالتِ عالیہ میں اپیل دائر کی۔

ابتدائی تفتیش میں ملزم نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے مصطفیٰ عامر کو قتل کرکے لاش ملیر میں پھینک دی، تاہم بعد میں وہ اپنے بیان سے منحرف ہو گیا۔ بعد میں اے وی سی سی، سٹیزنز پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) اور حساس ادارے کی مشترکہ کارروائی میں ملزم کے دوست شیراز کو گرفتار کیا گیا، جس نے اعتراف کیا کہ ارمغان نے اس کی مدد سے 6 جنوری کو مصطفیٰ کو گھر میں تشدد کرکے قتل کیا اور لاش کو اس کی گاڑی میں حب لے جا کر نذر آتش کر دیا۔

ملزم شیراز کی نشاندہی پر مقتول کی جلی ہوئی گاڑی حب سے برآمد کر لی گئی، جبکہ حب پولیس پہلے ہی مقتول کی لاش برآمد کرکے رفاہی ادارے کے حوالے کر چکی تھی، جسے امانتاً دفن کر دیا گیا تھا۔ مقتول کی لاش کی برآمدگی کے بعد مقدمے میں قتل کی دفعات شامل کر دی گئیں۔

تفتیشی حکام کے مطابق حب پولیس نے ڈی این اے نمونے لینے کے بعد لاش ایدھی کے حوالے کی تھی۔ دوسرا گرفتار ملزم شیراز، ارمغان کے پاس کام کرتا تھا اور قتل کے منصوبے اور لاش چھپانے کی سازش میں شامل تھا۔

کراچی پولیس کے مطابق مقتول مصطفیٰ کا اصل موبائل فون تاحال نہیں ملا، جبکہ ملزم ارمغان سے لڑکی کی تفصیلات، آلہ قتل اور دیگر شواہد کے حوالے سے مزید تفتیش جاری ہے۔ پولیس نے لاش کے پوسٹ مارٹم کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں قبر کشائی کی درخواست دی، جس پر گزشتہ روز عدالت نے قبر کشائی کا حکم جاری کر دیا۔

15 فروری کو کیس میں ایک نیا انکشاف سامنے آیا کہ مصطفیٰ اور ارمغان کے درمیان جھگڑے کی وجہ ایک لڑکی تھی، جو 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی۔ تفتیشی حکام انٹرپول کے ذریعے اس سے رابطے کی کوشش کر رہے ہیں۔

تفتیشی حکام کے مطابق ملزم ارمغان اور مقتول مصطفیٰ دوست تھے، اور ان کے درمیان جھگڑا نیو ایئر نائٹ پر شروع ہوا تھا، جس کے بعد تلخ کلامی کے دوران ارمغان نے مصطفیٰ اور لڑکی کو مارنے کی دھمکی دی۔ بعد میں ارمغان نے 6 جنوری کو مصطفیٰ کو بلا کر تشدد کا نشانہ بنایا، جبکہ لڑکی 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ کیس کے لیے لڑکی کا بیان ضروری ہے اور انٹرپول کے ذریعے اس سے رابطے کی کوشش جاری ہے۔

Mustafa Murder Case

Armaghan

DNA Report