ٹرمپ نے امریکی فوجی سربراہ کو ہٹا کر ریٹائر جرنیل کو لگا دیا
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعہ کو ملک کے سینئر ترین فوجی افسر کو برطرف کر دیا، جس سے پینٹاگون میں کئی ہفتوں سے جاری ہنگامہ مزید شدت اختیار کر گیا ہے۔ اس فیصلے سے اعلیٰ فوجی قیادت کے انتخاب میں سیاست کا عمل دخل واضح ہو گیا ہے۔
امریکی جریدے ”نیو یارک ٹائمز“ کے مطابق چیئرمین کے عہدے پر فائز ہونے والے دوسرے افریقی نژاد امریکی چار ستارہ فائٹر پائلٹ جنرل چارلس کیو براؤن جونئر کو ریٹائرڈ تین ستارہ ایئرفورس جنرل ڈین کین سے تبدیل کیا جا رہا ہے۔ جنرل کین نے چھ سال قبل عراق میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کے دوران ان کی حمایت حاصل کر لی تھی۔
صدر ٹرمپ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ”ٹروتھ سوشل“ پر اعلان کرتے ہوئے کہا، ’آج مجھے فخر ہے کہ میں ایئرفورس لیفٹیننٹ جنرل ڈین ”رازن“ کین کو جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کا اگلا چیئرمین نامزد کر رہا ہوں۔‘ انہوں نے جنرل کین کو ایک ماہر پائلٹ، قومی سلامتی کے ماہر، کامیاب کاروباری شخصیت اور جنگی حکمت عملی میں مہارت رکھنے والا فوجی قرار دیا۔
جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین جو تینوں مسلح افواج (بری، بحری اور فضائی) کے سربراہ ہوتے ہیں، عام طور پر سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر اپنے عہدے پر برقرار رہتے ہیں، لیکن وائٹ ہاؤس اور پینٹاگون کے موجودہ حکام نے فوجی قیادت میں اپنی پسند کے مطابق تبدیلیاں لانے کا عندیہ دیا تھا۔
یہ آری بیورو کریسی کیلئے ہے، ایلون مسک کے اعلان نے سب کو حیران کر دیا
وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ نے جنرل براؤن اور جنرل کین کے حوالے سے ایک بیان میں یہ بھی واضح کیا کہ امریکی بحریہ کی پہلی خاتون سربراہ ایڈمرل لیزا فرانچیٹی اور ایئرفورس کے نائب سربراہ جنرل جیمز سی سلائف کو بھی ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا، ’میں چیف آف نیول آپریشنز اور ایئرفورس کے نائب سربراہ کے لیے نامزدگیوں کی درخواست کر رہا ہوں۔‘
ہیگستھ نے فوج کے اعلیٰ قانونی ماہرین، یعنی آرمی، نیوی اور ایئرفورس کے جج ایڈووکیٹس جنرل کو بھی برطرف کر دیا، لیکن اس فیصلے کی کوئی وضاحت نہیں دی۔ اپنے سینیٹ کی توثیقی سماعت کے دوران انہوں نے فوجی وکلاء پر میدان جنگ میں غیر ضروری قانونی پابندیاں لگانے کا الزام لگایا تھا۔
جنرل براؤن کی برطرفی صدر ٹرمپ کے اس مؤقف کی عکاسی کرتی ہے کہ فوجی قیادت حد سے زیادہ تنوع کے مسائل میں الجھ گئی ہے اور اپنے اصل جنگی کردار سے ہٹ رہی ہے۔ وزیر دفاع ہیگستھ نے پہلے بھی جنرل براؤن کو فوج میں تنوع، مساوات اور شمولیت جیسے پروگراموں پر توجہ دینے پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب جنرل براؤن ٹیکساس کے شہر ایل پاسو میں موجود تھے اور صدر ٹرمپ کی امیگریشن پالیسیوں کے نفاذ کے لیے فوج کی تعیناتی کا جائزہ لے رہے تھے۔ انہیں وزیر دفاع ہیگستھ نے فون کر کے برطرفی کی اطلاع دی۔
امریکی امداد کی معطلی، افغانستان شدید معاشی بحران کا شکار ہوگیا
جنرل کین کی نامزدگی پر قانونی سوالات بھی اٹھ رہے ہیں کیونکہ جوائنٹ چیفس کے چیئرمین کے عہدے کے لیے عام طور پر کسی ایسے افسر کا انتخاب کیا جاتا ہے جو کسی بڑی فوجی کمانڈ کی قیادت کر چکا ہو۔ کانگریس میں اس معاملے پر غور کیا جا رہا ہے کہ آیا جنرل کین کے لیے خصوصی رعایت دی جا سکتی ہے۔
صدر ٹرمپ کے فیصلے سے پینٹاگون میں پہلے سے جاری ہلچل مزید بڑھ گئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق وزیر دفاع ہیگستھ نے سینئر فوجی حکام کو اگلے پانچ سالوں میں فوجی بجٹ میں آٹھ فیصد کٹوتی کے منصوبے تیار کرنے کا حکم دیا ہے۔
کانگریس میں بھی اس فیصلے پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ مسیسیپی کے ریپبلکن سینیٹر راجر وکر نے جنرل براؤن کی خدمات کو سراہا، لیکن جنرل کین کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ ڈیموکریٹ سینیٹر جیک ریڈ نے اس اقدام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’فوجی قیادت کو سیاسی وفاداری کے اصول پر پرکھنا اور تنوع و جنس کی بنیاد پر فیصلے کرنا فوجی اعتماد اور پیشہ ورانہ مہارت کو نقصان پہنچائے گا۔‘
ٹرمپ نے ایک ماہ میں جو اقدامات کئے اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی، ترجمان وائٹ ہاؤس
صدر ٹرمپ کی جانب سے فوج میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ انہوں نے اپنے دوسرے دورِ صدارت کے پہلے 24 گھنٹوں کے اندر کوسٹ گارڈ کی پہلی خاتون سربراہ ایڈمرل لنڈا فاگان کو بھی برطرف کر دیا تھا۔
Comments are closed on this story.