آج نیوز کی ٹیم نے دریجی میں مصطفی عامرکی جلی ہوئی گاڑی ڈھونڈ نکالی، ملزمان وہاں کیسے پہنچے؟ انکشاف
آج نیوز کی ٹیم نے دُریجی میں مصطفی کی جلی ہوئی گاڑی ڈھونڈ نکالی۔ ڈیڑھ سو کلومیٹر دشوارگزار راستہ، ملزمان کا وہاں پہنچنا کس طرح ممکن ہوا؟ کسی نے راستے میں پوچھا تک نہیں؟ قاتل واپس کراچی کس طرح آئے؟ سوالات کے حیران کن جوابات جانیے آج نیوز پر دیکھیے۔
آج نیوز کی ٹیم کے مطابق دریجی بلوچستان کا مقام کراچی سے 135 کلومیٹرکےفاصلے پرہے، دریجی وہی مقام ہے جہاں ارمضان مصطفیٰ کوقتل کرنے کے لیے لے کر آیا اورارمغان نے اسی مقام پر مصطفیٰ عامرکو گاڑی سمیت نذرآتش کردیا تھا۔
کراچی سے ڈنگا موضع کے مقام تک 4 پولیس چوکیاں قائم ہیں، پہلی چوکی ہمدرد چوکی تھی، دوسری چوکی ساکران بلوچستان کی چوکی تھی، تیسری چوکی لارک چوکی تھی، چوتھی چوکی دریجی تھانے کی چوکی تھی۔
ان راستوں پرسناٹا ایسا ہے کہ دن میں بھی سفرکرنےسے جی گھبرائے ، لیکن رات میں یہاں سفرکرنا کسی خوف سےکم نہیں، راستے میں آنے والی کسی بھی چوکی کوئی چیکنگ نہیں ہوئی، کراچی اور بلوچستان میں تمام چوکیوں کی صورتحال ایک جیسی تھی۔
کیس کے مرکزی ملزم ارمغان نے مصطفی کی لاش پھینکنے کے لیے دریجی کا انتخاب کیوں کیا؟
مرکزی ملزم ارمغان نے دوران تفتیش بتایا کہ شیراز نے کہا لہولہان مصطفی کو ٹھکانے لگانا ہوگا، میں نے گوگل پر ہنٹنگ پلیس کوسرچ کیا، گوگل سرچ میں سب سے اوپر دریجی کا نام آیا۔
پولیس کی جانب سے تفتیش کے دوران ملزم ارمغان نے مزید بتایا کہ گاڑی میں نیویگیشن آن کرکے میں اس مقام کی جانب چل پڑا۔
ملزم ارمغان کے مطابق دریجی پہنچ کر گاڑی کی ڈگی کھولی تو مصطفیٰ زندہ تھا، مصطفیٰ کو کہا کہ ڈگی اور شیشیے کھلے ہیں ہمت ہے تو بھاگ جا،مصطفیٰ نے حرکت کی کوشش کی لیکن مصطفیٰ گھٹنوں پرچوٹ کے باعث ہل نہیں پایا۔
ملزم ارمغان نے بتایا کہ ڈگی اور گاڑی کے شیشے کھولنے کے بعد اس پر پیٹرول چھڑکا، آگ لگنے کے فورا بعد مجھے شیراز نے وہاں سے چلنے کا کہا، میں اورشیراز حب سے پیدل نکلے اورمختلف گاڑیوں سے لفٹ لیکر کراچی پہنچے۔
پولیس کی تفتیش کے دوران ارمغان نے مزید بتایا کہ گاڑی میں نیویگیشن آن کرکے میں اس مقام کی جانب چل پڑا، پولیس کے مطابق واردات میں استعمال کی گئی گاڑی رجسٹرڈ ہی نہیں ہے۔
پولیس کے مطابق ملزمان نے دریجی جانے کے لیے حب کا عام راستہ استعمال نہیں کیا، ملزم کے بتائے گئے راستوں کا روٹ میپ بنایا ہے، لاش کو کراچی سے باہر ٹھکانے لگانے کا مقصد سی سی ٹی وی کیمروں سے بچنا تھا۔
مقتول مصطفی عامر کی قبر کشائی آج ہوگی
گیارہ جنوری کو قتل کے بعد مصطفی عامر کی مسخ شدہ لاش کو کہاں دفن کیا گیا؟ آج نیوز کی ٹیم مصطفی عامر کی قبر پر پہنچ گئی۔
مقتول مصطفی عامر کی قبر کشائی کل صبح نو بجے ہوگی، مواچھ گوٹھ قبرستان میں آج نیوز سے گفتگو میں ایدھی رضا کار نے بتیا کہ مسخ شدہ لاش بارہ فروری کو ملی۔ سولہ کو قبرستان میں لاوارث کی حیثیت سے تدفین کردی۔
ایدھی رضاکارنے بتایا کہ سولہ تاریخ کو لاش کو لاوارث قرار دے کر تدفین کردی، قبر کا نمبر ستانوے ہزار چار سو چالیس ہے۔
مصطفی عامرکی قبر کشائی آج صبح نو بجے کی جائے گی۔ تین رکنی میڈیکل بورڈ میں ڈاکٹر سمیہ سید، ڈاکٹر سری چند اور ڈاکٹرکامران خان شامل ہیں۔
مصطفیٰ عامر اغوا اور قتل کیس کا پس منظر
یاد رہے کہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) سی آئی اے مقدس حیدر نے 14 فروری کو پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ مقتول مصطفیٰ عامر 6 جنوری کو ڈیفنس کے علاقے سے لاپتا ہوا تھا، اور اس کی والدہ نے اگلے روز بیٹے کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروائی تھی۔
25 جنوری کو مقتول کی والدہ کو ایک امریکی نمبر سے 2 کروڑ روپے تاوان کی کال موصول ہوئی، جس کے بعد مقدمے میں اغوا برائے تاوان کی دفعات شامل کرکے کیس کو اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) کے حوالے کر دیا گیا۔
کراچی میں اغوا اورقتل ہونیوالے مصطفی عامر کی لاش سے متعلق آج نیوز نے تفصیلات حاصل کر لیں
بعد ازاں، 9 فروری کو اے وی سی سی نے ڈیفنس میں واقع ملزم کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا، تاہم ملزم نے پولیس پر فائرنگ کر دی، جس سے ڈی ایس پی اے وی سی سی احسن ذوالفقار اور ان کا محافظ زخمی ہو گئے۔ کئی گھنٹوں کی کوشش کے بعد ملزم کو گرفتار کیا گیا۔ پولیس نے ملزم کا جسمانی ریمانڈ لینے کے لیے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا، لیکن جج نے ملزم کو عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا، جس کے خلاف سندھ پولیس نے عدالتِ عالیہ میں اپیل دائر کی۔
ابتدائی تفتیش میں ملزم نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے مصطفیٰ عامر کو قتل کرکے لاش ملیر میں پھینک دی، تاہم بعد میں وہ اپنے بیان سے منحرف ہو گیا۔ بعد میں اے وی سی سی، سٹیزنز پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) اور حساس ادارے کی مشترکہ کارروائی میں ملزم کے دوست شیراز کو گرفتار کیا گیا، جس نے اعتراف کیا کہ ارمغان نے اس کی مدد سے 6 جنوری کو مصطفیٰ کو گھر میں تشدد کرکے قتل کیا اور لاش کو اس کی گاڑی میں حب لے جا کر نذر آتش کر دیا۔
ملزم شیراز کی نشاندہی پر مقتول کی جلی ہوئی گاڑی حب سے برآمد کر لی گئی، جبکہ حب پولیس پہلے ہی مقتول کی لاش برآمد کرکے رفاہی ادارے کے حوالے کر چکی تھی، جسے امانتاً دفن کر دیا گیا تھا۔ مقتول کی لاش کی برآمدگی کے بعد مقدمے میں قتل کی دفعات شامل کر دی گئیں۔
مصطفیٰ قتل کیس: جج کی جانب سے ملزم کا ریمانڈ نہ دیے جانے کی حقیقت کیا؟
تفتیشی حکام کے مطابق حب پولیس نے ڈی این اے نمونے لینے کے بعد لاش ایدھی کے حوالے کی تھی۔ دوسرا گرفتار ملزم شیراز، ارمغان کے پاس کام کرتا تھا اور قتل کے منصوبے اور لاش چھپانے کی سازش میں شامل تھا۔
کراچی پولیس کے مطابق مقتول مصطفیٰ کا اصل موبائل فون تاحال نہیں ملا، جبکہ ملزم ارمغان سے لڑکی کی تفصیلات، آلہ قتل اور دیگر شواہد کے حوالے سے مزید تفتیش جاری ہے۔ پولیس نے لاش کے پوسٹ مارٹم کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں قبر کشائی کی درخواست دی، جس پر گزشتہ روز عدالت نے قبر کشائی کا حکم جاری کر دیا۔
15 فروری کو کیس میں ایک نیا انکشاف سامنے آیا کہ [مصطفیٰ اور ارمغان کے درمیان جھگڑے کی وجہ ایک لڑکی تھی][2]، جو 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی۔ تفتیشی حکام انٹرپول کے ذریعے اس سے رابطے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تفتیشی حکام کے مطابق ملزم ارمغان اور مقتول مصطفیٰ دوست تھے، اور ان کے درمیان جھگڑا نیو ایئر نائٹ پر شروع ہوا تھا، جس کے بعد تلخ کلامی کے دوران ارمغان نے مصطفیٰ اور لڑکی کو مارنے کی دھمکی دی۔ بعد میں ارمغان نے 6 جنوری کو مصطفیٰ کو بلا کر تشدد کا نشانہ بنایا، جبکہ لڑکی 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ کیس کے لیے لڑکی کا بیان ضروری ہے اور انٹرپول کے ذریعے اس سے رابطے کی کوشش جاری ہے۔
Comments are closed on this story.