نوکری کے پہلے دن بھاگ جانا، جین زی کا نیا رجحان ”کیرئیر کیٹ فشنگ“ کیا ہے؟
دنیا بھر میں ملازمتوں کے حصول کا رجحان بدل رہا ہے، اور جین زی (جنریشن زیڈ) کے نوجوان ایک منفرد طریقہ اپنا رہے ہیں جسے ”کیرئیر کیٹ فشنگ“ کہا جا رہا ہے۔ اس طریقے میں امیدوار نوکری کے لیے درخواست دیتے ہیں، انٹرویو میں کامیابی حاصل کرتے ہیں، ملازمت قبول بھی کر لیتے ہیں، لیکن پہلے ہی دن دفتر نہیں جاتے اور جاتے بھی ہیں تو پہلے دن کے بعد غائب ہوجاتے ہیں اس کے بعد کبھی نظر نہیں آتے۔
”دی گارڈین“ نے ایک تازہ سروے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ 34 فیصد جین زی امیدواروں نے اس عمل میں حصہ لیا۔ حیرت انگیز طور پر 24 فیصد ملینیئلز، 11 فیصد جنریشن ایکس اور 7 فیصد بومرز بھی اسی رجحان کا حصہ بن چکے ہیں۔
ایسا کیوں ہو رہا ہے؟
ماہرین کے مطابق یہ رجحان نوکری کے پیچیدہ اور طویل بھرتی کے عمل کا ردعمل ہے۔ ملازمت کے متلاشی افراد کو اکثر 100 سے 200 درخواستیں بھیجنے کے بعد ایک آفر ملتی ہے، جس کے بعد کئی انٹرویوز اور جانچ پڑتال سے گزرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں اگر امیدوار کو بہتر موقع مل جائے یا وہ اپنی رائے بدل لے، تو وہ سیدھے طریقے سے انکار کرنے کے بجائے خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔
کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ امیدوار ایسا اس لیے بھی کرتے ہیں کیونکہ کمپنیوں کا رویہ بھی مثالی نہیں ہوتا۔کئی بار ادارے امیدواروں کو متعدد انٹرویوز کے بعد اچانک غائب ہو جاتے ہیں، یہاں تک کہ منتخب کیے گئے افراد سے بھی کوئی رابطہ نہیں کرتے۔
”گھوسٹ جابز“ اور ”پروفیشنل گھوسٹنگ“
ایک اور عنصر ”گھوسٹ جابز“ بھی ہے، جس میں کمپنیاں ایسی نوکریوں کے اشتہارات دیتی ہیں جو درحقیقت موجود ہی نہیں ہوتیں۔ ایسا یا تو اپنی ترقی کا جھوٹا تاثر دینے کے لیے کیا جاتا ہے یا موجودہ ملازمین کو دباؤ میں رکھنے کے لیے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ”کیرئیر کیٹ فشنگ“ کمپنیوں کے لیے مالی نقصان کا باعث بن سکتی ہے، لیکن دوسری طرف یہ ایک طرح کا انتقام بھی سمجھا جا رہا ہے۔
کچھ افراد کا ماننا ہے کہ جب ادارے خود ”پروفیشنل گھوسٹنگ“ کرتے ہیں، یعنی امیدواروں کو طویل مراحل میں ڈال کر اچانک غائب ہو جاتے ہیں، تو پھر انہیں بھی اسی کا سامنا کرنا چاہیے۔
آگے کیا ہوگا؟
اگر یہی سلسلہ جاری رہا، تو مستقبل میں ”گھوسٹ جابز“ کے لیے ”گھوسٹ ایمپلائز“ کا دور شروع ہو سکتا ہے، جہاں ادارے جعلی نوکریاں پیش کریں گے اور امیدوار انہیں قبول کر کے کبھی دفتر نہیں آئیں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کہنے کو تو یہ ایک مذاق لگ سکتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ عالمی روزگار کا منظرنامہ ایک بڑے بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔
Comments are closed on this story.