Aaj News

بدھ, مارچ 26, 2025  
25 Ramadan 1446  

’مصطفی سے کہا جان بچا سکتے ہو تو بھاگ جاؤ، مرکزی ملزم ارمغان کا اعتراف

ارمغان کا شناختی کارڈ جعلی اور گاڑی غیررجسٹرڈ نکلی
اپ ڈیٹ 21 فروری 2025 11:23am

ملزم ارمغان نے مصطفی کے قتل کا اعتراف کر لیا، تفتیش میں بتایا کہ فولڈنگ راڈ سے مصطفی پر تشدد کیا، گوگل پرہنٹنگ پلیس سرچ کی، دریجی پہنچنے پر مصطفی زندہ تھا، مصطفی سے کہا جان بچا سکتے ہو تو بھاگ جاؤ، مصطفی شدید زخمی ہونے کی وجہ سے بھاگ نہ سکا ،، اسے زندہ ہی جلا دیا ،، ارمغان کا شناختی کارڈ جعلی اور گاڑی غیررجسٹرڈ نکلی۔

کراچی کے نوجوان مصطفیٰ کے اغوا اور قتل کیس میں دوران تفتیش ملزم ارمغان قریشی سے لرزہ خیز انکشافات سامنے آئے ہیں۔ تفتیشی حکام کے مطابق ملزم ارمغان کی نشاندہی پر پولیس نے آلہ ضرب برآمد کرلیا ہے۔

حکام کے مطابق خیابان مومن میں ملزم ارمغان کے بنگلے پر کارروائی کی گئی، جہاں بنگلے کے گارڈ روم میں چھپایا گیا لوہے کا ڈنڈا برآمد ہوا۔ ملزم نے اعتراف کیا کہ اس نے مصطفیٰ کو دو گھنٹے تک لوہے کی راڈ سے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا، جس کے دوران مصطفیٰ کے سر اور گھٹنوں سے خون بہنے لگا تھا۔

تفتیش کے دوران ملزم نے مزید انکشاف کیا کہ 6 فروری کو اس نے شیراز کو اپنے بنگلے پر بلایا اور کچھ دیر بعد مصطفیٰ کو بھی وہاں بلا کر تشدد کا نشانہ بنایا۔

ملزم ارمغان کا کہنا تھا کہ تشدد کے وقت وہ نشے کی حالت میں تھا، جبکہ مصطفیٰ کے شدید زخمی ہونے پر شیراز نے اسے روکنے کی کوشش کی۔

ملزم نے بتایا کہ مصطفیٰ کو تشدد کے بعد شیراز کی مدد سے اسی کی گاڑی میں ڈال کر حب لے جایا گیا۔ جب حب میں گاڑی کی ڈگی کھولی گئی تو مصطفیٰ زندہ تھا۔

ملزم کے مطابق انہوں نے گاڑی کی ڈگی اور شیشے کھول کر مصطفیٰ پر پیٹرول چھڑکا اور کہا، ’ہمت ہے تو بھاگ جا‘۔

ملزم کے مطابق مصطفیٰ نے حرکت کرنے کی کوشش کی لیکن گھٹنوں پر چوٹ کے باعث ہل نہ سکا۔

ملزم نے مزید انکشاف کیا کہ آگ لگانے کے فوراً بعد شیراز نے اسے وہاں سے نکلنے کو کہا، جس کے بعد وہ اور شیراز حب سے پیدل نکلے اور مختلف گاڑیوں سے لفٹ لے کر کراچی پہنچے۔

ملزم نے لاش ٹھکانے لگانے کیلئے دریجی کا انتخاب کیوں کیا؟

ملزم ارمغان نے انکشاف کیا کہ شریک ملزم شیراز نے کہا کہ لہولہان مصطفیٰ کو ٹھکانے لگانا ہوگا، میں نے گوگل پر ہنٹنگ پلیس کو سرچ کیا، گوگل سرچ میں سب سے اوپر دریجی کا نام آیا، جس کے بعد گاڑی میں نیویگیشن آن کرکے چل پڑا۔

دوسری جانب پولیس کی تفتیش میں انکشاف ہوا کہ واردات میں استعمال کی گئی گاڑی رجسٹرڈ ہی نہیں۔

ڈی پی او حب سید فاضل شاہ بخاری کی گفتگو

مصطفی عامرقتل کیس میں حب پولیس کی تفتیش جاری ہے، ڈی پی او حب سید فاضل شاہ بخاری نے میڈیا سے گفتگومیں بتایا کہ کیس کی تفتیش ڈی ایس پی وندرکے حوالے کی گئی، تحقیقات کررہے ہیں ملزمان نے دریجی تک کون ساروٹ استعمال کیا۔

مصطفیٰ عامر اغواء و قتل کیس کا پس منظر

یاد رہے کہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) سی آئی اے مقدس حیدر نے 14 فروری کو پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ مقتول مصطفیٰ عامر 6 جنوری کو ڈیفنس کے علاقے سے لاپتا ہوا تھا، اور اس کی والدہ نے اگلے روز بیٹے کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروائی تھی۔

25 جنوری کو مقتول کی والدہ کو ایک امریکی نمبر سے 2 کروڑ روپے تاوان کی کال موصول ہوئی، جس کے بعد مقدمے میں اغوا برائے تاوان کی دفعات شامل کرکے کیس کو اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) کے حوالے کر دیا گیا۔

کراچی میں اغوا اورقتل ہونیوالے مصطفی عامر کی لاش سے متعلق آج نیوز نے تفصیلات حاصل کر لیں

بعد ازاں، 9 فروری کو اے وی سی سی نے ڈیفنس میں واقع ملزم کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا، تاہم [ملزم نے پولیس پر فائرنگ کر دی][1]، جس سے ڈی ایس پی اے وی سی سی احسن ذوالفقار اور ان کا محافظ زخمی ہو گئے۔ کئی گھنٹوں کی کوشش کے بعد ملزم کو گرفتار کیا گیا۔ پولیس نے ملزم کا جسمانی ریمانڈ لینے کے لیے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا، لیکن جج نے ملزم کو عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا، جس کے خلاف سندھ پولیس نے عدالتِ عالیہ میں اپیل دائر کی۔

ابتدائی تفتیش میں ملزم نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے مصطفیٰ عامر کو قتل کرکے لاش ملیر میں پھینک دی، تاہم بعد میں وہ اپنے بیان سے منحرف ہو گیا۔ بعد میں اے وی سی سی، سٹیزنز پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) اور حساس ادارے کی مشترکہ کارروائی میں ملزم کے دوست شیراز کو گرفتار کیا گیا، جس نے اعتراف کیا کہ ارمغان نے اس کی مدد سے 6 جنوری کو مصطفیٰ کو گھر میں تشدد کرکے قتل کیا اور لاش کو اس کی گاڑی میں حب لے جا کر نذر آتش کر دیا۔

ملزم شیراز کی نشاندہی پر مقتول کی جلی ہوئی گاڑی حب سے برآمد کر لی گئی، جبکہ حب پولیس پہلے ہی مقتول کی لاش برآمد کرکے رفاہی ادارے کے حوالے کر چکی تھی، جسے امانتاً دفن کر دیا گیا تھا۔ مقتول کی لاش کی برآمدگی کے بعد مقدمے میں قتل کی دفعات شامل کر دی گئیں۔

مصطفیٰ قتل کیس: جج کی جانب سے ملزم کا ریمانڈ نہ دیے جانے کی حقیقت کیا؟

تفتیشی حکام کے مطابق حب پولیس نے ڈی این اے نمونے لینے کے بعد لاش ایدھی کے حوالے کی تھی۔ دوسرا گرفتار ملزم شیراز، ارمغان کے پاس کام کرتا تھا اور قتل کے منصوبے اور لاش چھپانے کی سازش میں شامل تھا۔

کراچی پولیس کے مطابق مقتول مصطفیٰ کا اصل موبائل فون تاحال نہیں ملا، جبکہ ملزم ارمغان سے لڑکی کی تفصیلات، آلہ قتل اور دیگر شواہد کے حوالے سے مزید تفتیش جاری ہے۔ پولیس نے لاش کے پوسٹ مارٹم کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں قبر کشائی کی درخواست دی، جس پر گزشتہ روز عدالت نے قبر کشائی کا حکم جاری کر دیا۔

15 فروری کو کیس میں ایک نیا انکشاف سامنے آیا کہ [مصطفیٰ اور ارمغان کے درمیان جھگڑے کی وجہ ایک لڑکی تھی][2]، جو 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی۔ تفتیشی حکام انٹرپول کے ذریعے اس سے رابطے کی کوشش کر رہے ہیں۔

تفتیشی حکام کے مطابق ملزم ارمغان اور مقتول مصطفیٰ دوست تھے، اور ان کے درمیان جھگڑا نیو ایئر نائٹ پر شروع ہوا تھا، جس کے بعد تلخ کلامی کے دوران ارمغان نے مصطفیٰ اور لڑکی کو مارنے کی دھمکی دی۔ بعد میں ارمغان نے 6 جنوری کو مصطفیٰ کو بلا کر تشدد کا نشانہ بنایا، جبکہ لڑکی 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ کیس کے لیے لڑکی کا بیان ضروری ہے اور انٹرپول کے ذریعے اس سے رابطے کی کوشش جاری ہے۔

Mustafa Murder Case

Armaghan

Shiraz

Marsha