Aaj News

اتوار, مارچ 30, 2025  
1 Shawwal 1446  

26ویں ترمیم پر کس رکن نے استعفا دیا؟ پارلیمنٹ میں آپ کچھ اور، یہاں کچھ اوربات کرتے ہیں، جسٹس مسرت ہلالی

سیکشن ٹو ڈی کی وجہ سے بنگلہ دیش بن گیا، وکیل لطیف کھوسہ کا جواب
اپ ڈیٹ 19 فروری 2025 05:08pm

جسٹس مسرت ہلالی نے سویلین ٹرائل کیس میں ریمارکس دیے کہ چھبیس ویں ترمیم پرکس رکن نے استعفا دیا؟ پارلیمنٹ میں آپ کچھ اور، یہاں کچھ اوربات کرتے ہیں، وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ سیکشن ٹو ڈی کی وجہ سے بنگلہ دیش بن گیا، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا، کیا آپ نے آئینی ترمیم کی مخالفت میں ووٹ دیا؟ لطیف کھوسہ بولے پی ٹی آئی نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا۔

سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس امین الدین خان نے وکیل لطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ اس کیس میں سپریم کورٹ انڈر ٹرائل نہیں ہے، عدالت نے آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہے۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ نے آج بھی کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے آغاز میں اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ روسٹم پر آئے اور کہا کہ آج عمران خان کے وکیل عذیر بھنڈاری نے دلائل دینے تھے، بھنڈاری صاحب سے بات کرلی ہے، آج میں دلائل دوں گا۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ لوگ آپس میں طے کر لیں، ہمیں اعتراض نہیں کہ دلائل کون پہلے دے کون بعد میں۔ اعتزاز احسن نے سلمان اکرم راجا کے گزشتہ روز کے دلائل پر اعتراض کیا اور کہا کہ سلمان اکرم راجا بھی میرے وکیل ہیں۔

اعتزاز احسن نے کہا کہ سلمان اکرم راجہ نے کل جسٹس منیب اختر کے فیصلے سے اختلاف کیا تھا، میں نے سلمان اکرم راجہ کو ایسی کوئی ہدایت نہیں دی تھی، جسٹس منیب اختر کے فیصلے سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اعتراض شاید صرف آرٹیکل 63 اے والے فیصلے کے حوالے پر ہے، سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جسٹس منیب کے فیصلے کے صرف ایک پیراگراف سے اختلاف کیا تھا، کل دلائل ارزم جنید کی جانب سے دیے تھے اور ان پر قائم ہوں، میڈیا میں تاثر دیا گیا جیسے پتا نہیں میں نے کیا بول دیا ہے، آپ کے سوال کو سرخیوں میں رکھا گیا کہ عالمی قوانین میں سویلینز کے کورٹ مارشل کی ممانعت نہیں۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ جو سوال پوچھا تو وہ سب کے سامنے ہے، سوشل میڈیا نہ دیکھا کریں ہم بھی نہیں دیکھتے، سوشل میڈیا کو دیکھ کر نہ اثر لینا ہے نہ اس سے متاثر ہو کر فیصلے کرنے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ میڈیا کو بھی رپورٹنگ میں احتیاط کرنا چاہیے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ میرے خلاف بہت خبریں لگتی ہیں، بہت دل کرتا ہے جواب دوں، میرا منصب اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ جواب دوں۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ بغیر کسی معذرت کے اپنے دلائل پر قائم ہوں۔

جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ سوال تو ہم صرف مختلف زاویے سمجھنے کیلئے کرتے ہیں، ہو سکتا ہے ہم آپ کے دلائل سے متفق ہوں۔

اس کے بعد لطیف کھوسہ نے دلائل کا آغاز کر دیا۔ اعتزاز احسن نے اپنی درخواست کا نمبر تبدیل ہونے پر اعتراض اٹھایا اور کہا میری درخواست پہلے دائر ہوئی تھی۔

اعتزاز احسن نے کہا کہ جواد ایس خواجہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ہیں، جواد ایس خواجہ کی بعد میں دائر درخواست کو میرا کیس نمبر الاٹ کردیا گیا۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ایسا نہ کریں ایسی باتوں سے اور کہیں پہنچ جائیں گے۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ پوری قوم کی نظریں اس کیس پر ہیں، اس کیس کی وجہ سے سپریم کورٹ انڈر ٹرائل ہے۔

جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ انڈر ٹرائل نہیں ہے، عدالت نے آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہے۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ عدالتی فیصلوں کا تاریخ پھر جائزہ لیتی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ لطیف کھوسہ صاحب آپ کا چشمہ آگیا ہے، قانونی نکات پر دلائل شروع کریں، پہلے سیکشن ٹو ڈی کی قانونی حیثیت پر دلائل دیں۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ سیکشن ٹو ڈی کو نو اور دس مئی کے ساتھ مکس نہ کریں، پہلے ان سیکشن کی آزادانہ حیثیت کا جائزہ پیش کریں، سیکشن ٹو ڈی کا نو مئی دس مئی پر اطلاق ہوتا ہے یا نہیں۔

لطیف کھوسہ نے مؤقف اپنایا کہ آئین میں بنیادی حقوق کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے، سیکشن ٹو ڈی برقرار نہیں رکھا جا سکتا، ملٹری کورٹس تشکیل کو تاریخی تناظر میں دیکھنا ہوگا۔

لطیف کھوسہ نے استدلال کیا کہ قرآن پاک اور دین اسلام بھی عدلیہ کی آزادی کا ذکر موجود ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ عدلیہ کی آزادی خلفائے راشدین کے دور میں بھی تھی، حضرت عمر عدلیہ اورحکومت کے سربراہ رہے وہاں دونوں علیحدہ نہیں ہوئی۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ خلیفہ وقت کے خلاف یہودی کا فیصلہ آتا تھا وہ وقت بھی تھا۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ سیکشن ٹو ڈی کا قانون 1967 میں لایا گیا، سیکشن ٹو ڈی کی وجہ سے پاکستان ٹوٹ گیا، ملک ٹوٹ کر دوسرا حصہ بنگلہ دیش بن گیا، حمودالرحمٰن کمیشن رپورٹ میں لکھا ہے کہ وہاں ادارے کے خلاف نفرت پیدا ہوئی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا آئین میں قانون سازی کرنے پرکوئی ممانعت ہے؟

لطیف کھوسہ نے کہا کہ خصوصی عدالتوں کیلئے انہیں 21ویں ترمیم کرنا پڑی، سویلین کا خصوصی کورٹس میں ٹرائل نہیں ہوسکتا، خصوصی ٹرائل میں ججز اور ٹرائل آزاد نہیں ہوتا، اس لیے 9 مئی پر جوڈیشل کمیشن بنانے کی بات کی گئی۔

اس دوران جسٹس امین الدین خان نے ٹوکتے ہوئے کہا کہ کھوسہ صاحب آپ پھر دوسری طرف چلے گئے ہیں۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ میں کسی جماعت کی نمائندگی نہیں کر رہا، ساری عمر قانون کی حکمرانی کی جدوجہد کی ہے، سیکشن ٹو ڈی اسلامی تعلیمات کے منافی ہے، ملٹری ٹرائل خفیہ کیا جاتا ہے۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ خواجہ حارث نے بتایا شفاف ٹرائل کا پورا طریقہ کار ہے، پروسیجر اگر فالو نہیں ہوتا تو وہ الگ ایشو ہے۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ شفاف لا طریقہ کار لکھ دینے سے کیا فرق پڑتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کھوسہ صاحب تاریخ میں جائیں تو آپ کی بڑی لمبی پروفائل ہے، آپ وفاقی وزیر، سینیٹر، رکن اسمبلی، گورنر اور اٹارنی جنرل رہ چکے ہیں، آپ نے ان عہدوں پر رہتے ہوئے ٹو ڈی سیکشن ختم کرنے کیلئے کیا قدم اٹھایا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہماری طرف سے بے شک آج پارلیمنٹ اس سیکشن کو ختم کردے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ پارلیمنٹ میں آپ کچھ اور بات یہاں کچھ اور بات کرتے ہیں، خصوصی عدالتیں تو بعد میں بنی، سقوط ڈھاکہ کی وجوہات کچھ اور تھیں۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ آپ کے سامنے ہے 26 ترمیم کیسے پاس ہوئی، آپ اس میں فیصلہ دیں ہم فیصلہ پر عمل در آمد کروائیں گے، سویلین کا ٹرائل ختم کرنے پر عوام آپ کے شیدائی ہوجائیں گے۔

لطیف کھوسہ نے مزید کہا کہ ویں26 ترمیم کیسے پاس ہوئی، زبردستی ووٹ ڈلوائے گئے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ 26ویں ترمیم پر کس رکن نے استعفیٰ دیا؟ جس پر لطیف کھوسہ نے بتایا کہ اختر منگل نے رکن اسمبلی سے استعفیٰ دیا۔

وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دئے کہ سقوط ڈھاکہ کی وجہ صرف خصوصی ٹرائلز نہیں تھے، خصوصی ٹرائلز تو بہت آخر میں ہوئے ہوں گے، وجوہات اور بھی تھیں۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہم مضبوط فوج چاہتے ہیں جس کے ساتھ عوام بھی کھڑی ہو، چاہتے ہیں فوج ٹرائلز کے معاملے سے باہر نکلے۔

انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 175 کے خلاف تمام قانون سازی کالعدم ہوتی رہی ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ اکسیویں ترمیم میں خصوصی عدالتوں کو کالعدم کیوں نہیں قرار دیا گیا؟ جس پر لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ اکیسویں ترمیم کو جنگی صورتحال اور دو سال کی مدت کی وجہ سے کالعدم قرار نہیں دیا گیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا چار سال خصوصی عدالتیں قائم رہنے سے دہشتگردی ختم ہوگئی؟

لطیف کھوسہ بولے کہ آج اخبار میں خبریں دیکھ کر شرم آئی کہ لوگوں کو چن چن کر گولیاں ماری گئیں، بدقسمتی سے اٹھارہویں ترمیم سے بھی صوبائیت کو ہوا ملی۔

انہوں نے کہا کہ فوج آئینی دائرے میں رہتے ہوئے دہشتگردی کا جڑ سے خاتمہ کرے، عدالت فوج کو ٹرائلز سے نکال کر ان کا احترام کرائے، دنیا میں جہاں بھی سازش ہوئی پہلے فوج کو عوام سے دور کیا گیا، سب ادارے آئین کے دائرے میں رہیں تو مسئلہ حل ہو جائے گا، اتنی بڑی فوج ہے پھر بھی دہشتگردی کیوں ختم نہیں ہو رہی؟

جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آپ ایم این اے ہیں یہ باتیں پارلیمنٹ میں کریں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے بھی کہا کہ یہ مسائل پارلیمنٹ کے حل کرنے والے ہیں۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ اسمبلی میں بولنے لگتا ہوں تو مائیک بند کر دیا جاتا ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آپ چھبیسویں ترمیم منظور کرتے ہیں پھر ہمیں کہتے ہیں کالعدم قرار دیں۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ اسمبلی میں تو سارجنٹ ایٹ آرمز کے ذریعے اٹھوا کر باہر پھینک دیا جاتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا آپ نے آئینی ترمیم کی مخالفت میں ووٹ دیا؟ جس پر لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ پی ٹی آئی نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کا کام مخالفت کرنا تھا اپنا کردار تو ادا کرتے، خیر اس بات کو چھوڑیں یہ سیاسی بات ہوجائے گی۔

لطیف کھوسہ نے آئی سی جے عدالت کی رپورٹ کا حوالہ دیا۔ جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا عالمی عدالت انصاف کے ممبران کے ملک میں بھی دہشتگردی واقعات ہوتے ہیں؟

لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ بالکل وہاں پر دہشت گردی کے واقعات ہوتے ہیں۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے سوال کیا کہ کیا وہاں ملٹری املاک کو نشانہ بنایا جاتا ہے؟

جسٹس جمال مندوخیل نے لطیف کھوسہ کو پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے پر بات کرنے سے روک دیا اور کہا کہ پشاور ہائیکورٹ کا یہ فیصلہ سپریم کورٹ میں پینڈنگ ہے۔

جسٹس محمد علی مظہرنے کہا کہ کیا آئی سی جے رپورٹ کا پارلیمنٹ نے جائزہ لیا؟ رپورٹ میں خصوصی ٹرائل پر اپیل کا حق دینے کا کہا گیا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کھوسہ صاحب آپ اس رپورٹ پر پرائیویٹ ممبر بل لے آتے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ کھوسہ صاحب یہ 2019 کی رپورٹ ہے، آج کل آپ کو پریشانی ہے 2019 میں آپ کی جماعت کو کوئی پریشانی نہیں تھی، برا وقت تو بعد میں آیا ہے۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہم اس وقت بھی اپوزیشن سائیڈ پر تھے۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ بعض اوقات جھوٹے واقعات سے ملک کو بدنام بھی کیا جاتا ہے، مختاراں مائی کیس میں ملک کی کتنی بدنامی کی گئی، جس کا جتنا دل چاہتا ہے ملک کو بدنام کرتا ہے، مختاراں مائی کیس ثابت نہیں ہوا، مختاراں مائی کیس میں کیا ہوا تھا معلوم ہے۔

وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ مختاراں مائی کیس جھوٹا نہیں تھا، مختاراں مائی کیس میں گینگ ریپ کیا گیا۔

اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ کی جانب سے دلائل مکمل کیے جانے کے بعد بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل عزیر بھنڈاری اپنے دلائل کا آغاز کیا۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ عدالت کے سامنے 175 آرٹیکل (3)8 5 اور 10 کے سوالات ہیں، جس پر عزیر بھنڈاری کا کہنا تھا کہ وہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم قرار دینے کے فیصلے کی مکمل تائید کرتے ہیں۔

عزیر بھنڈاری کا مؤقف تھا کہ فوج ایگزیکٹو کا حصہ ہے عدالتی اختیار اس کے پاس نہیں، فوج آرٹیکل 245 کے اختیار سے باہر نہیں نکل سکتی۔

جس پر جسٹس امین الدین نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں ٹو ڈی ون ٹو کو ختم کرنے کی ضرورت نہیں؟

عزیر بھنڈاری بولے کہ وقت بدل رہا ہے ایف بی علی مقدمہ اب متعلقہ نہیں رہا ہے، دلائل کا آغاز انٹرا کورٹ اپیلوں کے دائرہ اختیار سے کروں گا، انٹراکورٹ اپیلوں کا دائرہ اختیار محدود ہے، نظرثانی اور انٹرا کورٹ اپیل کے دائرہ کار میں کوئی فرق نہیں۔

عزیر بھنڈاری کے مطابق نظرثانی میں فیصلہ غیرآئینی ہونے یا ریکارڈ کا جائزہ نہ لینے پر کالعدم ہوسکتا ہے، جس پر جسٹس امین الدین خان بولے؛ آپ تو ہمارا اختیار ہی محدود کر رہے ہیں۔

اس موقع پر عزیر بھنڈاری کا کہنا تھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس میں عدالت نے خود کہا کہ انٹرا کورٹ اپیل اندرونی ارینجمنٹ ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس میں عدالت ہماری بات مان لیتی تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔

جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ سلمان اکرم راجہ کے مطابق عدالت فیصلے اور اسکی وجوہات سے اختلاف کرسکتی ہے، ان کا کہنا تھا کہ وہ ذاتی طور پر سلمان اکرم راجہ سے اتفاق کرتے ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا انٹراکورٹ اپیلوں میں عدالت کو احتیاط سے کام لینا چاہیے، 5 ججز کے فیصلے کو ہم غلط کہہ سکتے نہ ساتھی ججز کیخلاف آبرویشنز دے سکتے ہیں۔

آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ آئینی بینچ اپیلوں کے دائرہ اختیار پر بھی فیصلہ دے گا۔

خصوصی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی کردی گئی، بانی پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری کل بھی دلائل جاری رکھیں گے۔

Supreme Court of Pakistan

Civilian's Trial in Special Court