Aaj News

بدھ, مارچ 26, 2025  
25 Ramadan 1446  

مصطفیٰ قتل کیس: ملزم ارمغان عدالت میں بیہوش، ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

ملزم کے والد کامران قریشی عدالت میں اپنے بیٹے کے لیے پھل لے کر پہنچ گئے
شائع 18 فروری 2025 03:34pm

کراچی میں نوجوان مصطفیٰ عامر کے اغوا اور قتل کے ہائی پروفائل کیس کے ملزم ارمغان کو سندھ ہائیکورٹ میں پیش کردیا گیا، جہاں عدالت نے اے ٹی سی ون کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔ اے ٹی سی ون نے جیل کسٹڈی کا فیصلہ دیا تھا۔ بعدازاں ملزم کو عدالتی حکم پر اے ٹی سی تو میں پیش کیا گیا جہاں سے اسے چار روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا گیا۔

محکمہ پراسیکیوشن کی انسداد دہشتگردی عدالت کے فیصلے کے خلاف درخواست پر عدالت نے مختصر تحریری حکم نامہ جاری کیا، جس کے مطابق پراسیکیوشن کی چاروں درخواستیں منظور کرلی گئیں، عدالت نے ٹرائل کورٹ کے 10 اور 11 فروری کے احکامات کالعدم قرار دے دئے اور حکم دیا کہ کیس کے تفتیشی افسر ملزم ارمغان کو انسداد دہشتگردی عدالت نمبر دو میں پیش کریں۔

عدالت نے حکم دیا کہ اے ٹی سی نمبر دو پراسیکویشن کی چاروں درخواستوں پر قانون کے مطابق نئے احکامات جاری کریں۔

قبل ازیں، مرکزی ملزم ارمغان کو ہتھکڑی لگا کر اور چہرہ ڈھانپ کر سخت سیکیورٹی میں عدالت پہنچایا گیا۔ جبکہ اس کے والد کامران قریشی بھی عدالت پہنچے۔

عدالت میں قائم مقام پراسیکیوٹر جنرل سندھ سمیت دیگر متعلقہ فریقین بھی پیش ہوئے۔

کراچی میں اغوا اورقتل ہونیوالے مصطفی عامر کی لاش سے متعلق آج نیوز نے تفصیلات حاصل کر لیں

عدالت میں داخل ہوتے ہی کامران قریشی نے اپنے بیٹے کو دیکھ کر کہا، ’تم بالکل بھی ٹھیک نہیں لگ رہے ہو‘۔ جس پر ملزم ارمغان نے سر ہلا کر ہاں میں جواب دیا۔

میرا بیٹا بے قصورہے، مصطفٰی عامر کو شیراز نے قتل کیا، ارمغان کے والد کا دعویٰ

ملزم کے والد کامران قریشی عدالت میں اپنے بیٹے کے لیے پھل لے کر پہنچے اور کہا، ’میرے بیٹے کو مارا جا رہا ہے، اس کے لیے پھل لایا ہوں۔‘

ملزم ارمغان کا تشدد کا الزام

سندھ ہائیکورٹ میں انسداد دہشتگردی عدالت کی جانب سے ملزم کے جسمانی ریمانڈ نہ دیے جانے کے خلاف محکمہ پراسیکیوشن کی درخواست پر سماعت ہوئی۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کسٹڈی کہاں ہے؟ جس پر ارمغان کو پیش کردیا گیا۔

اس کے بعد ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے ایف آئی آر پڑھ کر سنائی۔ ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے بتایا کہ چھ جنوری کو مصطفیٰ عامر کو اغوا کیا گیا اور مقدمہ نامعلوم ملزمان کے خلاف درج کیا گیا، درخشاں تھانے کے پولیس افسر نے مصطفیٰ کی والدہ کا بیان ریکارڈ کیا، 13جنوری کو تاوان کی کال کے بعد مقدمہ اے وی سی سی کو منتقل ہوا۔

ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے بتایا کہ ملزم سے مغوی کا ایک موبائل فون برآمد کیا گیا۔

اس دوران عدالت نے استفسار کیا کہ ملزم پہلے کب مقدمات میں مفرور تھا؟ جس پر ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے بتایا کہ ملزم کا سی آر او پیش کیا گیا ہے، پانچ مقدمات ملزم کے خلاف درج ہیں، ملزم بوٹ بیسن تھانے کے بھتے کے کیس میں مفرور ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ پولیس کسٹڈی کی درخواست کس بنیاد پر مسترد کی گئی؟ کیا تشدد کیا گیا؟ جس پر ملزم ارمغان نے کہا کہ مجھ پر تشدد کیا گیا۔

عدالت نے کہا کہ دکھائیں نشانات کہاں ہیں، ملزم کی شرٹ اتاریں اور دکھائیں۔ جس کے بعد ملزم کی شرٹ اتار کر دکھائی گئی تو ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ تشدد کا کوئی نشان نہیں ہے۔

مصطفیٰ قتل کیس: ارمغان نے پولیس کے ساتھ مقابلہ کرکے بالکل درست کیا، والد

عدالت نے کہا کہ اگر تشدد کی شکایت تھی تو میڈیکل چیک اپ کا آرڈر کرتے۔

ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل منے کہا کہ ریمانڈ پراسیکیوشن کا حق تھا، کیا ملزم نے جیل میں درد کی شکایت کی ہے؟ کیا جیل میں علاج یا معائنے کی درخواست دی تھی؟

جس پر ملزم ارمغان نے کہا کہ میں شاک میں تھا۔

دوران سماعت عدالت نے کہا کہ پورا آرڈر ٹائپ ہے وائٹو لگا کر جیل کسٹڈی (جے سی) کیا ہے۔ جسٹس ظفر احمد راجپوت نے ریمارکس دئے کہ ہاتھ سے وائٹو لگا کر جے سی کیا گیا ہے، پولیس ابھی تک لکھا ہوا ہے۔

پراسکیوٹر جنرل نے کہا کہ ملزم کا باپ جج صاحب کے کمرے میں موجود تھا میں حلف اٹھا کر کہتا ہوں۔

اس دوران محکمہ داخل کے حکام نے کہا کہ ہم نے ریکارڈ کورٹ سے لیا ہے، محکمہ داخلہ سے آئے ہیں، رجسٹرار کا عہدہ خالی ہے جس کے پاس چارج ہے وہ عمرے پر گئی ہیں۔

جس پر عدالت نے کہا کہ وہ بات نا کریں جو آپ نے درخواست میں نہیں لکھی ہے۔

عدالت نے پولیس ریمانڈ کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

بعدازاں، سندھ ہائیکورٹ نے ارمغان کے ریمانڈ پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

جس کے بعد ملزم کو آج ہی اے ٹی سی ٹو میں ریمانڈ کے لئے پیش کیا گیا۔

جہاں عدالت نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ چار ایف آئی آر ہیں ملزم پر؟ جس پر جواب دیا گیا کہ جی چار مقدمات ہیں۔

عدالت نے ملزم سے استفسار کیا کہ کیا نام ہے آپ کا؟ جس پر ملزم نے جواب دیا کہ میرا نام ارمغان ہے اور والد کا نام کامران ہے۔

عدالت نے سوال کیا کہ آپ 10 تاریخ سے جیل میں ہیں؟ ملزم نے جواب دیا کہ جی میں دس تاریخ سے جیل میں ہوں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ مارا تو نہیں آپ کو؟ جس پر ملزم نے آبدیدہ ہوتے ہوئے بتایا کہ مجھے بہت مارا ہے۔

سرکاری وکیل نے کہا کہ ہمیں جسمانی ریمانڈ چاہئے تاکہ تفتیش کرسکیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ لاش، گاڑی اور اسلحہ برآمد ہوا؟

اس دوران ملزم کمرہ عدالت میں گر کر بیہوش ہوگیا، ملزم کو کمرہ عدالت میں بینچ پر لِٹا دیا گیا۔

ملزم کے وکیل نے کہا کہ ملزم کی حالت ٹھیک نہیں اس کا میڈیکل کرایا جائے۔ جس پر عدالت نے انویسٹیگیشن افسر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میڈیکل تو پہلے دن ہی ہوجانا چاہئے تھا پھر کیوں نہیں کرایا؟

تفتیشی افسر نے کہا کہ ہمیں نو دن کا جسمانی ریمانڈ دیا جائے تاکہ تفتیش مکمل کرسکیں، تاہم عدالت نے چار دن کے ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔

ملزم ارمغان عامر مصطفیٰ قتل سے مکر گیا

ملزم ارمغان عدالت میں مصطفیٰ عامر کے قتل سے مکر گیا۔ ارمغان نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ میں نے مصطفیٰ کو نہیں مارا مجھے پھنسایا جارہا ہے۔

صحافی نے جب ملزم ارمغان سے سوال کیا کہ پولیس پر فائرنگ کیوں کی؟ تو جواب میں اس نے کہا کہ میرے گھر پر ڈکیتی مار رہے تھے۔

اس دوران ملزم ارمغان صحافیوں سے بدتمیزی بھی کی۔

ملزم ارمغان کے والد کے امریکی قانون کے حوالے

ملزم ارمغان کے والد نے عدالت میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملک نہیں سدھرے گا۔

انہوں نے امریکی قانون کا حوالہ دیا، ساتھ ہی کہا کہ جج کے فیصلے کو نہیں مانا جارہا۔

ان کا کہنا تھا کہ میرے بیٹے کا میڈیکل تک نہیں کیا گیا، میڈیا پر چلایا گیا کہ ارمغان نشے میں تھا، اس کی میڈیکل رپورٹ کہاں ہے؟

کامران قریشی نے کہا کہ انسداد دہشتگردی عدالت کے تین حکم ہیں اس پر عمل درآمد نہیں ہوا، کورٹ نے کہا میری بیٹے سے ملاقات کرائی جائے، مقدمہ درج کیا جائے اب تک اس پر عمل نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ یہ سب ڈرامے بند ہونے چاہئیں، کل آپ سب لوگوں کے بچوں سے ایسےہو سکتا ہے۔

Mustafa Murder Case

Armaghan

Armaghan Father