Aaj News

ہفتہ, مارچ 29, 2025  
28 Ramadan 1446  

گھر گھر میں لگژری گاڑیاں رکھنے والا دنیا کا سب سے امیر جزیرہ کنگال ہوگیا

اس جزیرے کی کہانی صرف ایک جزیرے کی بربادی نہیں بلکہ ایک بڑا سبق ہے
شائع 17 فروری 2025 01:16pm

دنیا میں کچھ ممالک ایسے بھی ہیں جو قدرت کی عطا کردہ نعمتوں کی بدولت دیکھتے ہی دیکھتے ترقی کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔ عرب ممالک کی مثال سب کے سامنے ہے، جہاں ریگستانوں کی سرزمین نے تیل کے خزانے اگل دیے اور وہ بے پناہ دولت کے مالک بن گئے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ بحرالکاہل میں واقع ننھے سے جزیرے نؤرو (Nauru) کے ساتھ بھی ہو۔

’نورو جزیرہ‘ جسے فاسفیٹ کے ذخائر نے دنیا کے امیر ترین ممالک کی فہرست میں شامل کر دیا۔ مگر آج یہی جزیرہ غربت کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے اور اس کے سنہرے دن ماضی کی داستان بن چکے ہیں۔

نؤرو، جو اپنی دلکش قدرتی خوبصورتی، سفید ریتیلے ساحلوں اور سرسبز ناریل کے درختوں کے باعث جانا جاتا ہے، 1900 کی دہائی میں اچانک عالمی توجہ کا مرکز بن گیا۔ برطانوی ماہرین نے یہاں فاسفیٹ کے بے پناہ ذخائر دریافت کیے، جو کھاد بنانے کے لیے انتہائی قیمتی خام مال تھا۔ 1907 میں برطانوی، آسٹریلوی اور نیوزی لینڈ کی حکومتوں نے یہاں باقاعدہ کان کنی کا آغاز کیا اور فاسفیٹ کی برآمد سے اس چھوٹے سے جزیرے کی تقدیر بدل گئی۔

ہر 45 منٹ میں ایک کروڑ پتی برطانیہ کیوں چھوڑ رہا ہے؟

1968 میں آزادی حاصل کرنے کے بعد نؤرو نے اپنے فاسفیٹ کے ذخائر پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا۔ دولت کی اتنی تیزی سے آمد ہوئی کہ یہ جزیرہ جلد ہی دنیا کے امیر ترین ممالک میں شمار ہونے لگا۔ 1982 میں نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ نؤرو کی فی کس آمدنی کسی بھی تیل سے مالا مال عرب ملک سے زیادہ ہو چکی تھی۔

شاندار طرزِ زندگی، دولت کی ریل پیل

نؤرو میں ہر گھر کے باہر مہنگی ترین گاڑیاں کھڑی ہوتی تھیں۔ لیمبورگینی، فراری، کیڈیلک، جیپ اور لینڈ روور جیسی لگژری گاڑیاں عام تھیں۔ عوام کو کسی بھی قسم کا معاشی دباؤ نہیں تھا کیونکہ حکومت نے ایک فلاحی ریاست کا تصور قائم کر دیا تھا۔ تعلیم، صحت، علاج، ٹرانسپورٹ، اور یہاں تک کہ سرکاری اخبار تک مفت فراہم کیے جاتے تھے۔ جن مریضوں کا علاج مقامی اسپتالوں میں ممکن نہ ہوتا، انہیں حکومت کے خرچے پر 2500 میل دور آسٹریلیا بھیجا جاتا۔

تعلیمی میدان میں بھی نؤرو کے طلبہ کے لیے دروازے کھلے تھے۔ حکومت نے آسٹریلوی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم کا مکمل خرچ برداشت کرنے کی ذمہ داری لی ہوئی تھی۔

عروج سے زوال تک بدانتظامی اور غیر دانشمندانہ فیصلے، دولت کا زیاں

اتنی زیادہ دولت ہاتھ میں آتے ہی نؤرو میں فضول خرچی اور غیر ذمہ داری کی ایک لہر دوڑ گئی۔ بے شمار غیر ضروری منصوبے شروع کیے گئے، دولت عیاشیوں میں اڑا دی گئی، اور معیشت کا کوئی مستحکم ڈھانچہ کھڑا نہ کیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ فاسفیٹ کے ذخائر تیزی سے ختم ہونے لگے اور جیسے ہی وسائل ختم ہوئے، دولت کا بہاؤ بھی رک گیا۔

بیرون ملک ملازمتیں بیورو آف ایمپلائمنٹ کے ذریعے کیسے حاصل کریں

بدانتظامی اور غیر دانشمندانہ فیصلوں کے باعث نؤرو کے حالات دن بدن بگڑتے گئے۔ جو لگژری گاڑیاں ایک زمانے میں شاہی طرزِ زندگی کی علامت تھیں، وہی اب سڑکوں کے کنارے زنگ آلود لاوارث کھڑی نظر آتی ہیں۔

معروف یوٹیوبر روحی سینت نے 2024 میں نؤرو کا دورہ کیا اور اپنی رپورٹ میں لکھا کہ اس جزیرے کی بدحالی دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ کبھی دنیا کے امیر ترین ممالک میں شامل تھا۔

نؤرو کی کہانی ایک سبق ہے کہ قدرتی وسائل کی بے دریغ لوٹ مار، غلط فیصلے، اور غیر منصوبہ بندی کتنی بڑی تباہی لا سکتی ہے۔ جس طرح عرب ممالک نے تیل کی دولت کو دانشمندی سے استعمال کر کے اپنی معیشت کو استحکام دیا، نؤرو اگر ایسی کوئی حکمت عملی اختیار کرتا تو آج بھی خوشحال ہوتا۔

دبئی کتنا محفوظ ہے؟ ویڈیو نے سب کو حیرت میں مبتلا کر دیا

بلاشبہ دور اندیش قیادت کا ایک بنیادی اصول یہ ہوتا ہے کہ وہ آج کے فیصلوں کے اثرات کا اندازہ لگائے اور آنے والے وقت کی تیاری کرے۔ نؤرو کے حکمرانوں نے صرف حال کی دولت کو انجوائے کیا، مگر آنے والے سالوں کے لیے کوئی حکمت عملی نہ بنائی۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی مشکلات آئیں، ملک کو سنبھالنے کی کوئی راہ باقی نہ رہی۔

نؤرو کی کہانی صرف ایک جزیرے کی بربادی نہیں، بلکہ ایک بڑا سبق ہے کہ چند غلط فیصلے اور غلط حکمت عملی سب کچھ ختم کر سکتی ہے۔

world

GDP

lifestyle

wealth

Nauru lost wealth

world richest island