مصطفیٰ قتل کیس: جج کی جانب سے ملزم کا ریمانڈ نہ دیے جانے کی حقیقت کیا؟
قانونی ماہر عابد زمان نے وضاحت کی ہے کہ مصطفٰی قتل کیس کی ابتدائی معلوامتی رپورٹ (ایف آئی آر) میں پولیس نے جسمانی ریمانڈ کی درخواست ہی نہیں کی تھی۔
عابد زمان نے آج نیوز کے پروگرام ”دس“ میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مشتبہ ملزم ارمغان کو پولیس کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے کے بعد گرفتار کیا گیا۔ اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) عام طور پر اغوا برائے تاوان کے کیسز دیکھتا ہے، لیکن اس کیس میں مرکزی ملزم کے گھر پر چھاپے کے دوران فائرنگ کے بعد گرفتاری عمل میں آئی۔ پولیس نے اسے ریمانڈ پر لیا تھا اور اس حوالے سے تین مختلف ایف آئی آر درج کی گئی تھیں، جن میں فائرنگ اور اسلحہ رکھنے کے الزامات شامل تھے۔ انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) میں دیا گیا ریمانڈ بھی انہی تین ایف آئی آرز سے متعلق تھا۔
انہوں نے مزید وضاحت کی کہ ان ہی ایف آئی آرز کی بنیاد پر جج نے ملزم کو جیل بھیجنے کا حکم دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اغوا کی ایف آئی آر میں دفعہ 365 لگائی گئی تھی، جس میں اغوا کے بعد غیر قانونی قید کا ذکر ہوتا ہے، جبکہ 365-اے (اغوا برائے تاوان) شامل نہیں کی گئی تھی، جس کے باعث یہ کیس انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) کی دفعہ 7 کے زمرے میں نہیں آیا۔
پولیس نے مصطفیٰ قتل کیس کو توڑ مروڑ کر پیش کیا، مزید کڑیاں کھلنے لگیں
پروگرام کے میزبان عمران سلطان نے معاملے کو سادہ الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ اے وی سی سی کی جانب سے پیش کیا گیا چالان تاوان کی کال سے متعلق نہیں تھا بلکہ پولیس کے ساتھ ہونے والے مقابلے سے متعلق تھا، جس پر عابد زمان نے تصدیق کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ دفعہ 365-اے کے تحت ریمانڈ کراچی کی سٹی کورٹ میں مانگا گیا تھا۔
عابد زمان کے مطابق، 10 جنوری کو انتظامی جج کے سامنے ایف آئی آر نمبر 12 میں ریمانڈ کی درخواست نہیں کی گئی تھی، بلکہ اے وی سی سی نے ایف آئی آر نمبر 123 کے تحت ریمانڈ مانگا۔ اس موقع پر ملزم نے الزام لگایا کہ اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جس کی بنیاد پر اسے جیل کسٹڈی میں بھیج دیا گیا۔
انہوں نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ جج نے ریمانڈ کی اجازت نہیں دی۔ انہوں نے مقتول مصطفیٰ کی والدہ کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تفتیشی افسر نے اغوا کی دفعہ کا ذکر ہی نہیں کیا اور نہ ہی اس بنیاد پر ریمانڈ کی درخواست دی۔
امریکا میں زیرتعلیم لڑکی، ملزم کا بااثر باپ: کراچی ڈیفنس میں نوجوان کے قتل کی کہانی کیا ہے؟
مزید وضاحت کرتے ہوئے، عابد زمان نے کہا کہ پولیس نے 11 جنوری کو ایف آئی آر میں 7 اے ٹی اے (دہشت گردی کی کارروائی پر سزا) شامل کی اور انتظامی جج سے ملزم کی تحویل کے لیے این او سی لینے کی کوشش کی، کیونکہ یہ کیس انسداد دہشت گردی عدالت کے دائرہ اختیار میں آ گیا تھا۔ اس پر اے ٹی سی جج نے حکم دیا کہ اس کیس کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جائے، جس کے بعد ریمانڈ کی درخواست دی جا سکتی ہے۔
Comments are closed on this story.