Aaj News

منگل, اپريل 22, 2025  
23 Shawwal 1446  

مصطفیٰ قتل کیس: ملزم کا جسمانی ریمانڈ نہ دینے اور جج کے ریمارکس پر وزیراعلیٰ سندھ نے سوال اٹھا دئے

جج نے کیس کی سماعت میں پولیس کے بارے میں جو ریمارکس دیے امید ہے عدلیہ اس پر بھی سزا دے گی، مراد علی شاہ
شائع 15 فروری 2025 08:33am

چھ جنوری کو کراچی کے علاقے ڈیفنس سے لاپتا نوجوان مصطفیٰ کی لاش پولیس کو بلوچستان کے ضلع حب سے مل گئی ہے، ملزم ارمغان کے دوست نے ہولناک انکشاف کئے ہیں، جبکہ وزیراعلیٰ سندھ نے ملزم کا ریمانڈ نہ دینے پر اظہار خیال کیا اور جج کے ریمارکس کو نامناسب قرار دیا ہے۔

پولیس کے مطابق مقتول مصطفیٰ کو اس کے دوست ارمغان نے کراچی میں اپنے گھر پر قتل کیا، پھر لاش کار کی ڈگی میں رکھ کر بلوچستان کے ضلع حب لے جائی گئی اور گاڑی سمیت آگ لگا دی، بلوچستان پولیس کو مکمل طور پر سوختہ لاش ملی جسے فلاحی ادارے نے امانتاً سپرد خاک کردیا۔

مقامی تھانے کے ایس ایچ او کے مطابق گاڑی گیارہ جنوری کو جلی ہوئی حالت میں ملی تھی اور اس کی ڈگی میں ایک سوختہ لاش تھی جسے حب شہر میں سرد خانے منتقل کیا گیا تھا۔

کراچی پولیس نے جب مصطفیٰ کی تلاش شروع کی تو سب سے پہلے ڈیفنس میں ارمغان کے گھر پر چھاپا مارا گیا، جہاں موجود ارمغان نے پولیس پر فائرنگ کردی جس میں دو پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے تھے۔

پولیس نے مقابلے کے بعد ملزم ارمغان کو گرفتار کرلیا، گھر کی تلاشی کے دوران ارمغان کے کمرے سے خون کے دھبے اور مصطفیٰ کا موبائل فون ملا۔

پولیس نے گھر سے سو کے قریب لیپ ٹاپ بھی برآمد کیے تھے، خون کے نمونے ڈی این اے کے لیے لیبارٹری بھجوا دیے گئے جبکہ کار کی ڈگی سے ملنے والی سوختہ لاش کا ڈی این اے بھی کروایا جارہا ہے۔

ڈی آئی جی سی آئی اے مقدس حیدر کی چودہ فروری کی شام سی آئی اے سینٹر صدر میں ہونے والی پریس کانفرنس کے بعد کیس کی گتھیاں سلجھنے بجائے اور الجھ گئیں۔ انٹیروگیشن میں ملزم شیراز کے ہولناک انکشافات اور قتل سے پہلے مصطفیٰ کی آخری آڈیو ریکارڈنگ سامنے آئی۔

مرکزی ملزم ارمغان قریشی کے ایک اور دوست شیراز نے ہولناک انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ ارمغان نے مصطفیٰ عامر کو بہانے سے گھر بلوایا، لوہے کی راڈ سے تین گھنٹے تک اس پر بہیمانہ تشدد کرتا رہا پھر اسے نیم بیہوشی کی حالت میں اس کے منہ پر ٹیپ باندھ کر کیماڑی سے بذریعہ ہمدرد چوکی کے راستے بلوچستان لے گئے اور دھوراجی پر دو کلو میٹر دور پہاڑی کے قریب گاڑی روک دی، ڈگی کھولی تو مصطفیٰ سب ابھی زندہ تھا، پھر ارغمان نے پیڑول جھڑکا اور لائٹر سے دور کھڑے رہ کر آگ لگا دی۔

اس کے بعد شیراز کے مطابق ،ملزمان تین گھنٹے پیدل چلتے رہے، راستے میں دونوں ملزمان کو کسی گاڑی والے نے لفٹ نہیں دی، سوزوکی والے کو دو ہزار روپے دے کر فور کے چورنگی پہنچے، جہاں سے دونوں ملزمان رکشہ کے ذریعے ڈیفنس اپنے گھر پہنچے۔

پولیس چھاپے کے بعد ملزم ارغمان نے ویڈیو بنانے کے لئے شیراز کو گھر بھیجا، پولیس کے خوف سے شیراز ویڈیو نہ بنا سکا اور فرار ہو گیا۔

جبکہ مقتول کی آڈیو میں سنا جاسکتا ہے کہ مصطفیٰ نے اپنے دوست کو بتایا کہ ارمغان کے پاس جا رہا ہوں، اگر یہ آڈیو میسج اس کے دوست کے پاس تھا تو پولیس ایک ماہ تک کیوں خاموش رہی؟ مصطفیٰ کے دوست نے کیوں پولیس کو نہیں بتایا کہ مصطفیٰ آخری بار ارمغان کے پاس گیا تھا۔

وزیراعلیٰ سندھ جج کے ریمارکس پر برہم

مصطفیٰ قتل کیس کے ملزم کو عدالت کی جانب سے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے نہ کرنے پر وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے سوال اٹھا دیا اور معزز جج کے ریمارکس پر بھی شکوہ کیا۔

وزیراعلیٰ نے گزشتہ روز جہاں آئی جی سندھ اور دیگر پولیس افسران کو مبارک باد دی تو وہیں ڈیفنس میں اغوا کے بعد قتل کیے گئے نوجوان مصطفیٰ کے مقدمے میں پولیس اور عدلیہ کے کردار پر بھی بات کی۔

ان کا کلہنا تھا کہ مصطفیٰ قتل کیس کے ملزم کو عدالت نے جسمانی ریمانڈ پولیس کے حوالے کیوں نہیں کیا۔ جج صاحب نے پولیس کے بارے میں غیر مناسب ریمارکس کیوں دیے؟

وزیراعلیٰ نے کہا کہ اگر کیس کی تحقیقات میں کسی پولیس افسر سے کوئی کوتاہی ہوئی ہو تو اس کو سزا کے طور پر نوکری سے نکال دینا چاہیے، لیکن عدالت کے جج نے کیس کی سماعت میں پولیس کے بارے میں جو ریمارکس دیے امید ہے عدلیہ اس پر بھی سزا دے گی۔

CM Sindh

Murad Ali Shah