شبِ برات اسلامی سال کی ایک مبارک اور فضیلت والی رات
شبِ برات اسلامی سال کی ایک مبارک اور فضیلت والی رات مانی جاتی ہے، جو شعبان کی 15ویں شب کو آتی ہے۔ اس رات کو اللہ تعالیٰ کی رحمت، مغفرت اور برکتوں سے معمور سمجھا جاتا ہے۔
بعض علماء کے مطابق شبِ برات وہ عظیم رات ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنی بے پایاں رحمت کے ساتھ اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور مغفرت کے دروازے کھول دیتا ہے۔ اس رات کو توبہ، استغفار، اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کا بہترین موقع سمجھا جاتا ہے۔ اور مانا جاتا ہے کہ جو بھی خلوصِ دل سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے، اللہ اسے معاف فرما دیتا ہے، کیونکہ وہ ”غفار“ ہے، یعنی بار بار معاف کرنے والا۔
اس رات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شب میں آسمانِ دنیا پر تجلی فرماتا ہے اور اپنے بندوں کی مغفرت کرتا ہے، سوائے ان کے جو کینہ پرور، والدین کے نافرمان، یا کسی کے حقوق تلف کرنے والے ہوں۔ اسی لیے شبِ برات کو عبادت، توبہ، استغفار، اور دعا کے لیے خاص طور پر اہم سمجھا جاتا ہے۔
اس رات میں مسلمان نوافل ادا کرتے ہیں، قرآن کی تلاوت کرتے ہیں، درود و سلام پڑھتے ہیں اور اللہ سے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ کچھ لوگ قبرستان بھی جاتے ہیں تاکہ اپنے مرحومین کے لیے دعا کریں۔
اس سلسلے میں آج ٹی وی کے پروگرام ”آج پاکستان“ میں سدرہ اقبال نے بھرپور گفتگو کی اورپروگرام کے مہمانانِ گرامی سے سوالات کئے۔
انہوں نے کہا کہ آج کی رات استغفار کی رات ہے، عبادتوں کی رات ہے، ہمیں نہیں پتہ ہمیں کتنی بار عطا ہوگی جتنا ہوسکتا ہے اس رات میں اللہ رب العزت کا قرب اور رحمتیں سمیٹ لیں۔
انہوں نے معزز مہمانوں کو خوش آمدید کہا اورآنلائن موجود مفتی نوررحمانی سے سوالات کا سلسلہ شروع کیا۔ مفتی نور رحمانی نے انڈیا کے سفر کا ذکر کیا اور خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ کے اجمیر شریف مزار پر حاضری پر شکر ادا کیا، اس کے ساتھ ہی انہون نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہہ اور رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے حوالے سے گفتگو کی۔
علامہ حسین مسعودی نے درود و سلام کے ساتھ قران کی آیات کا حوالہ دے کر اس رات کو براَت یعنی نجات اور گناہوں سے دوری، حفاظت، لغزشوں کوتاہیوں سے محفوظ رہنے کے لئے اعمال کی دعاؤں کی رات اور اس کی برکتوں پر بات کی۔
مسز ارم ضیاء نے اس رات کو اللہ کی خاص رحمتوں کے نزول نزول کی رات اور خواتین ک کردار اور عبادات کے حوالے سے بات کی۔
سدرہ اقبال نے پورے سال کا رزق ، زندگی اور موت کے اس سال کے فیصلے اور میٹھا اور آتشبازی، پٹاخے پھوڑنے جیسے عمل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ برصغیر سے ہمارے رویے بن گئے ہیں، اور کہا کہ ہمارے آقا رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دوسری قوموں سے شباہت اختیار نا کریں۔
علامہ حسین مسعودی نے کہا بچوں کا پھلجڑی جلانا خوش ہونا الگ بات ہے اور بم اور پٹاخے پھوڑنا غلط عمل ہے، لوگوں کو اذیت اور تکلیف دینا نہایت غلط عمل ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے ہاں تہوار کا کانسیپٹ بیہودگی نہیں بلکہ لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے، عبادت کے لیے، اعمال درست کرنے اور اپنے بارے میں سوچنے کیلئے ہے کہ اپنی ذات کو کس طرح رب کے آگے اور معاشرے کی فلاح و بہبود کے لئے پیش کرنا ہے۔ انہوں نے ان تمام باتوں پر زور دیا اور امام مہدی علیہ السلام کی ولادت کے حوالے سے ذکر کیا۔
اسی طرح ارم ضیاء نے پٹاخوں کو کفار کا عمل قرار دیتے ہوئے کہا کہ مسلمان اس رات عبادت کرتے تھے تو لوگ ان کی عبادت میں خلل ڈالنے کے لئے ایسا کرتے تھے، یہ ہم مسلمانوں کا عمل یا شیوہ ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ مفتی نور رحمانی نے بھی پٹاخوں کو اسلام کے منافی عمل قرار دیتے ہوئے صلاۃ القضائے عمری کی بہت تاکید کی اور کہا کہ اس رات میں پڑھنا چاہیے۔
Comments are closed on this story.