راولپنڈی؛ تشدد سے جاں بحق ملازمہ کےمقدمے میں ایک اور پیشرفت سامنے آگئی
راولپنڈی میں بارہ سالہ گھریلو ملازمہ کے تشدد سے جاں بحق ہونے کے مقدمہ کی تفتیش میں پیشرفت سامنے آئی ہے، تشدد میں ملوث میاں بیوی راشد شفیق اور ثنا راشد کے بعد تیسری ملزمہ کو بھی گرفتارکرلیا گیا۔
پولیس کے مطابق تیسری ملزمہ کی شناخت روبینہ بی بی کے نام سے ہوئی ہے جو زخمی بچی کو ہسپتال چھوڑنے آئی تھی۔
گزشتہ روز 12 سالہ اقرا پر تشدد کی اطلاع پر سی پی او سید خالدہمدانی نے نوٹس لیتے ہوئے فوری کارروائی کا حکم دیا جس پر تشدد میں ملوث میاں بیوی کو فوری طور پر تحویل میں لے لیا گیا تھا۔
ملزمان نے منصوبہ بندی سے جھوٹ بتایا کہ بچی کا والد فوت ہو چکا ہے پولیس نے تفتیش کرتے ہوئے بچی کے والد کو بھی تلاش کرلیا، مقتولہ کے والد کے مطابق بچی دو سال سے ملزمان کے گھر میں کام کررہی تھی۔
ابتدائی تحقیقات کے مطابق ملزمان اکثرتشدد کرتے تھے، بچی کے جسم کے مختلف حصوں پرتشدد کے نشانات پائے گئے ہیں، ملزمان کے خلاف قتل سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔
سی پی او کا کہنا ہے کہ معصوم بچی پر تشدد میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دلوائی جائے گی۔
گھریلو ملازمہ سرگودھا میں سپرد خاک
تشدد سے جاں بحق ہونے والی گھریلو ملازمہ اقرا کو سرگودھا میں سپرد خاک کردیا گیا، بد ترین تشدد کا شکاراقرا کی میت جب نواحی علاقے تینتالیس جنوبی پہنچی تو کہرام مچ گیا۔
اقرا کے والد ثنااللہ کے مطابق بچی پچھلے دو سال سے بطورملازمہ کام کررہی تھی، محض چاکلیٹ گم ہونے کا الزام لگا کر اقرا کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور سر، بازو، ٹانگوں اور چہرے کو تیز دھار آلے سے کاٹا گیا۔ بچی کے بازو اور ٹانگیں بھی توڑی گئیں۔
والد نے وزیراعظم اور وزیراعلی پنجاب سے معاملہ کا نوٹس لے کر ظالموں کے خلاف سخت قانونی کارروائی اور انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کیا ہے۔
ڈی ایس پی وارث خان سرکل ملک رفاقت کا کہنا ہے کہ بارہ سالہ اقرا کو بغیر اجازت چاکلیٹ کھانے پر بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ملزمان میاں بیوی پندرہ دن تک بچی پر تشدد کرتے اور جرم چھپانے کی کوشش کرتے رہے۔
ملزمان نے بچی کے ٹخنے توڑ ڈالے سر کی ہڈی توڑ ڈالی بال کھینچتے رہے، ملزمان بچی کو تشویشناک حالت میں اسپتال چھوڑ کر فرار ہوگئے تھے۔ پولیس ٹیم جب اسپتال پہنچی تو ملزمان نے نام پتہ بھی غلط درج کروا رکھا تھا۔
پولیس اور ڈاکٹرز نے اپنے طور پر بچی کی جان بچانے کی بہت کوشش کی، بعد ازاں معلوم ہوا کہ بچی کا والدہ زندہ ہے۔ والد کے پاس بچی کے پاس پہنچنے کا کرایہ تک نہ تھا وہ بھی پولیس نے فراہم کیا۔
راولپنڈی تھانہ بنی کی حدود میں کمسن گھریلو ملازمہ پر مبینہ تشدد کی ایف ائی آر والد کی مدعیت میں تھانہ بنی میں درج کی گئی۔ ایف آئی آر میں دفعہ 302, چلڈرن ایکٹ 2004 سمیت 7 دفعات شامل کی گئیں۔
ترجمان پولیس کے مطابق ابتدائی تفتیش میں ملزمان نے جھوٹ بولا کہ بچی کا والد نہیں ہے، پولیس نے تفتیش کر کے والد کو تلاش کر لیا جس نے بتایا کہ میرے کل 5 بچے ہیں جن میں 3 بیٹیاں 2 بیٹے شامل ہیں۔ بچی ایک سال سے زائد عرصہ تک ملازمت کرتی رہی ہے۔
مقدمے کے متن کے مطابق والد نے بتایا کہ تین ماہ قبل اپنی بیٹی سے مل کرآیا تھا، میری بیٹی ایک سال سے راولپنڈی میں ماہوار 8 ہزار گھریلو ملازمہ تھی۔ میری بیٹی نے 12 روز قبل فون پر اطلاع دی کہ مالک راشد اور ثنا باجی مجھ پر تشددکرتے ہیں۔
مقدمے میں کہا گیا کہ مالک راشد شفیق اور ثنا نے میری بیٹی پر قتل کی نیت سے تشدد کیا۔ ملزمان سخت سے سخت قانونی کارروائی عمل لائی جائے۔
Comments are closed on this story.