زمین روشن کرنے کیلئے خلا میں بڑا آئینہ نصب کرنے والا روس کا انوکھا منصوبہ کیا تھا؟
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ رات کو دن میں بدلا جا سکتا ہے؟ یہ کسی سائنسی فکشن فلم کی کہانی لگتی ہے، لیکن روس نے 1993 میں حقیقت میں ایسا کرنے کی کوشش کی۔ روسی خلائی ایجنسی روسکوسموس کے ایک منفرد منصوبے ’زنمیا‘ کا مقصد کسی ملک کو بلیک میل کرنا یا ہتھیار بنانا نہیں تھا، بلکہ شدید سردی میں ڈوبے قطبی علاقوں کو روشنی فراہم کرنا تھا۔
یہ منصوبہ انسانی تاریخ میں پہلی بار نہیں تھا جب خلا میں آئینہ لگا کر زمین پر روشنی ڈالنے کا تصور پیش کیا گیا ہو۔ بلکہ خلا میں آئینہ لگانے کا خواب ایک قدیم خیال ہے۔
سنہ 1923 میں جرمن راکٹ سائنسدان ہرمن اوبرتھ نے اپنی کتاب ’دی راکٹ ٹو پلینیٹیری اسپیس‘ میں خلا میں آئینہ نصب کرنے کا آئیڈیا دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ آئینہ کسی بھی مقام پر روشنی ڈالنے، آفات سے بچاؤ، اور توانائی کے نئے ذرائع پیدا کرنے کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کا خیال تھا کہ اگر 1912 میں ٹائٹینک کے قریب ایسا آئینہ موجود ہوتا، تو حادثے کے بعد زندہ بچ جانے والوں کی مدد کی جا سکتی تھی۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران، نازی سائنسدانوں نے خلا میں ایک ایسا آئینہ لگانے کا منصوبہ بنایا تھا جسے ’سونن گیوہر‘ (Sun Gun) کہا گیا۔ اس کا مقصد سورج کی شعاعوں کو شہروں پر مرکوز کر کے انہیں جلا دینا، یا جھیلوں میں پانی کو ابالنا تھا۔
برطانوی وزیراعظم اصلی ’ٹرمینیٹر‘ اور ’اسکائی نیٹ‘ متعارف کروانے والے ہیں؟
امریکی انٹیلی جنس کی رپورٹس کے مطابق، نازی سائنسدانوں کا دعویٰ تھا کہ یہ منصوبہ اگلے 50 سالوں میں قابلِ عمل ہو سکتا تھا۔
جنگ کے بعد، کئی جرمن سائنسدانوں کو امریکہ لے جایا گیا تاکہ وہ امریکی خلائی پروگرام میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
1970 کی دہائی میں جرمن نژاد امریکی انجینئر کرافٹ ایہرک نے دوبارہ خلا میں آئینے کے ذریعے زمین پر روشنی منعکس کرنے کے تصور پر کام کیا۔ 1978 میں انہوں نے ایک مقالہ لکھا جس میں انہوں نے بتایا کہ کس طرح زمین کے مدار میں آئینے لگا کر 24 گھنٹے زراعت ممکن بنائی جا سکتی ہے۔
ان کا منصوبہ ’پاور سولیٹا‘ کہلاتا تھا، جس کا مقصد سورج کی روشنی کو سولر پینلز پر منعکس کرنا تھا تاکہ بجلی پیدا کی جا سکے۔ بدقسمتی سے، یہ منصوبہ ان کی زندگی میں مکمل نہ ہو سکا، لیکن 1997 میں ان کی باقیات کو خلا میں بھیج دیا گیا۔
بھارت کے نیوکلئیر پروگرام کو بڑا جھٹکا
1980 کی دہائی میں، روس کے خلائی انجینئر ولادیمیر سیرومیاتنیکوف نے سولر آئینے کے ذریعے زمین پر روشنی ڈالنے کا خیال پیش کیا۔ وہ پہلے ہی یوری گگارین کے خلائی مشن اور اپولو سویزٹیسٹ پروجیکٹ میں شامل ہو چکے تھے۔
ان کے مطابق، اگر بڑے سولر آئینے خلا میں نصب کیے جائیں اور انہیں درست زاویے پر رکھا جائے، تو سورج کی روشنی کو زمین پر مخصوص مقامات پر منعکس کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح روس کے آرکٹک علاقوں میں جہاں سردیوں میں لمبی راتیں ہوتی ہیں، وہاں مصنوعی دن کا ماحول پیدا کیا جا سکتا تھا۔
اسکے علاوہ 4 فروری 1993 کو روس نے ’زنمیا 2‘ کے تحت ایک تجربہ کیا، جس میں ایک 20 میٹر قطر کا آئینہ خلا میں بھیجا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ زمین پر روشنی منعکس کر کے رات کو دن میں بدلا جا سکے۔
مگر بدقسمتی سے، آئینے نے مکمل طور پر کام نہیں کیا، کیونکہ یہ خلا میں موجود ملبے سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا۔ اس کے باوجود، روسی سائنسدانوں نے اس منصوبے کو آگے بڑھانے کا ارادہ کیا اور ’زنمیا 2.5‘ پر کام شروع کیا۔
پاکستانی سائنس دان کو بھی خصوصی پروگرام کے تحت سعودی شہریت مل گئی
کیا زنمیا منصوبے کا خاتمہ ہوچکا اور اب اس پر عمل نہیں کیا جائے گا
1999 میں زنمیا 2.5 کا تجربہ ہونا تھا، لیکن مالی مشکلات اور تکنیکی چیلنجز کی وجہ سے یہ کبھی لانچ نہیں ہو سکا۔ روس کے خلائی بجٹ میں کمی کے باعث یہ منصوبہ بالآخر ترک کر دیا گیا۔
کیا خلا میں آئینے کا خواب آج بھی زندہ ہے؟
جی ہاں آج بھی سائنسدان ایسے منصوبوں پر غور کر رہے ہیں جن میں خلائی آئینے استعمال کر کے زمین پر روشنی اور توانائی پہنچائی جا سکے۔ چین نے بھی ایسا منصوبہ پیش کیا ہے جس کے تحت 2025 تک ایک مصنوعی چاند بنایا جائے گا جو رات کے وقت روشنی فراہم کرے گا۔
یہ سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ کیا مستقبل میں ہم رات کو دن میں بدلنے کے قابل ہو سکیں گے؟ یا یہ خیال صرف ایک سائنسی خواب ہی رہے گا؟
Comments are closed on this story.