Aaj News

اتوار, مارچ 30, 2025  
1 Shawwal 1446  

فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: عام شہری کے گھر گھسنا بھی جرم ہے، جسٹس جمال مندوخیل

آرمی آفیسرز پر بھی آرٹیکل 175 کی شق 3 کا اطلاق ہونا چاہیے، سلمان اکرم راجہ
اپ ڈیٹ 11 فروری 2025 01:16pm

خصوصی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر آج بھی جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی ہے۔

فوجی عدالت سے سزایافتہ مجرم کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے آج اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مرکزی فیصلے میں کہا گیا آرٹیکل 175 کی شق 3 سے باہر عدالتیں قائم نہیں ہو سکتیں۔

جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ سروس معاملات میں ابتدائی سماعت محکمانہ کی جاتی ہے، جسٹس حسن اظہر رضوی بولے کہ نو مئی واقعات کی فوٹیج ٹی وی چینلز پر بھی چلائی گئی، کور کمانڈرز ہاؤسز میں گھس کر توڑ پھوڑ کی گئی۔

جسٹس حسن اظہر رضوی کا کہنا تھا کہ آج کل جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کرنا ایک فیشن بن چکا ہے، 9 مئی واقعات میں ایک گھر میں گھس کر ٹی وی اسکرینوں پر ڈنڈے مارے گئے، بنگلہ دیش میں بھی یہی کچھ ہوا، شام میں بھی لوٹ مار کی گئی، یہ کلچر بن چکا ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کسی عام شہری کے گھر گھسنا بھی جرم ہے، جس پر سلمان اکرم راجہ بولے کہ آرمی آفیسرز پر بھی آرٹیکل 175 کی شق 3 کا اطلاق ہونا چاہیے۔

جسٹس نعیم اختر افغان کا کہنا تھا کہ ملک میں 1973 کا آئین بنا، 18ویں ترمیم میں مارشل لا ادوار کے تمام قوانین کا جائزہ لیا گیا، وہ کام جو پارلیمنٹ کے کرنے کا ہے، وہ سپریم کورٹ سے کیوں کروانا چاہتے ہیں، اگر کوئی ملٹری آفیسر آیا تو اس سوال کا جائزہ لیں گے۔

سلمان اکرم راجہ کو مخاطب کرتے ہوئے جسٹس نعیم اختر افغان بولے کہ آپ کیس کے اختیار سماعت سے باہر نہ نکلیں، بھارت کی مثال دے رہے ہیں وہاں بھی پارلیمنٹ کے ذریعے قانون میں تبدیلی کی گئی ہیں۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ کیا دنیا میں کبھی کہیں کور کمانڈرز ہاؤسز پر حملے ہوئے، جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جی ہوئے ہیں، اس کی مثالیں بھی دیں گے۔

دوران سماعت سلمان اکرم راجہ نے لا ریفارمز آرڈیننس کالعدم قرار دینے کے فیصلے کا حوالہ دیا، جس پر جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلوں میں جو نشاندہی کی گئی کیا اس پر قانون سازی ہوئی۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ پتا نہیں کن کاموں میں پڑی ہوئی ہے، جو باتیں آپ یہاں کر رہے ہیں وہ پارلیمنٹ کے کرنے کی ہیں۔

سلمان اکرم راجہ بولے کہ سزا دینے کے عمل میں عدالتی اختیار کو استعمال کیا جانا چاہیے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ آپ جتنے بھی فیصلوں کے حوالے دے رہے ہیں، وہ بلوچستان ہائیکورٹ سے ہوئے۔

سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے آئین پاکستان کی پوری تاریخ دیکھی ہے، مارشل لا ادوار میں بلوچستان ہائیکورٹ نے ہمیشہ عام شہریوں کے تحفظ کے لیے فیصلے دیے، جسٹس وقار سیٹھ صاحب نے بھی پشاور ہائیکورٹ سے اہم فیصلہ دیا۔

سلمان اکرم راجہ کے مطابق مرحوم جسٹس وقار سیٹھ صاحب کے فیصلے کا حوالہ عالمی عدالت انصاف میں بھی دیا گیا، ان کے فیصلے کو سپریم کورٹ نے معطل کیا، کوئی عدالت آرٹیکل 175 کی شق 3 کے باہر قائم ہی نہیں جا سکتی۔

اس کے بعد سماعت میں وقفہ کردیا گیا۔

وقفے کے بع سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ملزمان نے خصوصی کورٹس حوالگی کو چیلنج کیوں نہ کیا؟ کیا یہ ملزمان کی جانب سے لاپرواہی نہیں برتی گئی؟

جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یہ لاپرواہی نہیں تھی، آپ نےسوال پوچھا تو حقیقت بتاتا ہوں، نو 9 مئی کے ملزمان اور ان کے اہلِ خانہ کو سخت حالات سے گزرنا پڑا، 10ملزمان نے ٹرائل چیلنج کرنے کیلئے مجھے وکیل کیا تھا، لیکن ہائیکورٹ پٹیشن فائل کرنے سے پہلے ملزمان کی فیملی کی کال آجاتی، کال پر کہا جاتا پلیز نہ فائل کریں ہمارا گھر ہی نہیں بچے گا۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ایک ملزم جنید رزاق نے پٹیشن واپس لینے سے انکار کیا، آج میں اسی جنید رزاق کا وکیل ہوں اور اسے سلام پیش کرتا ہوں، میں جنید رزاق پر کتاب لکھوں گا اس کی ہیرو والی کہانی ہے، جنید رزاق نے ہر طرح کے حالات کا سامنا کیا مگر پٹیشن واپس نہیں لی۔

خصوصی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کل تک ملتوی کردی گئی، سلمان اکرم راجہ کل بھی دلائل جاری رکھیں گے۔

Supreme Court of Pakistan

Civilian's Trial in Special Court