اہم ملکی اداروں کی طرح عدالتیں بھی تباہ وبرباد ہوگئی ہیں، سینیٹر کامران مرتضیٰ
جمعیت علما اسلام کے سینئر رہنما اور معروف قانونداں سینیٹرکامران مرتضیٰ نے کہا ہے کہ ملک کے دیگر اداروں کی طرح عدالتیں بھی تباہ وبرباد ہوگئی ہیں، اختلافات ہر جگہ ہوتے ہیں لیکن کبھی اس طرح کھلے انداز میں نہیں سامنے نہیں آئے تھے، لوگ حیران پریشان ہیں کہ آخر یہ ہوکیا رہا ہے؟
آج ٹی وی کے پروگرام ’نیوز انسائٹ ودعامر ضیا‘ کے میزبان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ میں گروپنگ ہوگئی ہے، گذشتہ کئی برس سے عدلیہ کی تقسیم جاری ہے، موجودہ حکومت نے تو کچھ بھی نہیں چھوڑا، اعلیٰ عدلیہ میں ایسے ہورہا ہے جیسے باقاعدہ متحارب گروہ ہوتے ہیں، اس معاملے کا سنھبالنا ممکن نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح ملک کے باقی ادارے بٹ چکے ہیں، ویسے ہی وکلا تنظیمیں بھی دومتحارب گروپوں میں تقسیم ہوچکی ہیں، دونوں گروپ اپنے مفادات کے لئے کام کررہے ہیں۔
سینئر قانونداں ضیا اعوان نے کہا کہ ججز سیاست کر رہے ہیں، وکلا کے گروپ اپنے، اپنے بیانیے پر چل رہے ہیں، یہ عدلیہ کی تباہی ہے، انصاف کا نظام پٹری سے اترگیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 26 آئینی ترمیم کسی بھی آزاد وکیل کے لئے قابل قبول نہیں ہوگی، اسلام آباد ہائیکورٹ دراصل وفاقی عدالت ہے، اس میں دیگر صوبوں کی عدالتوں سے نئے ججوں کا آنا خوش آئند ہے۔
ضیااعوان نے مزید کہا کہ ججوں کے گروپوں انصاف کے نظام ڈی ریل رہے ہیں، اب حکومت کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہیں، میں نے عدالتوں کی آزادی کے لئے جیلیں کاٹی ہیں، وکلا کے گروپوں کو آپس میں بیٹھ کر بات کرنا چاہیے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما سینیٹرعون عباس بپی نے کہا کہ عمراں خان نے بطور سابق وزیر اعظم آرمی چیف کو خط لکھا ہے، اسٹیبلشمنٹ نے موجودہ حکومت کا پورا بوجھ اٹھایا ہوا ہے، خط میں بانی پی ٹی آئی نے ملک کو درپیش مسائل کی نشاندہی کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا سب سے بڑا اسٹیک ہولڈر اس وقت فوج اور اسٹیبلشمنٹ ہے، کہیں نہ کہیں ان سے بات کی جانی چاہیے اور کرنی چاہیے۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر اس طرح کی جعلی حکومت کا مسلط کیا گیا ہے، اس سے ملکی معیشت متاثر ہورہی ہے، عوام ان لوگوں پر اعتماد نہیں کریں گے، انہوں نے کہا کہ ہم مناسب سمجھیں گے تو حکومت کے ساتھ برابری کی سطح پر بات چیت کریں گے۔
پروگرام کے آخر میں ملک میں حالیہ دہشت گردی کی لہر سے حوالے سے بھی بات کی گئی۔
Comments are closed on this story.