Aaj News

منگل, اپريل 22, 2025  
24 Shawwal 1446  

دہشت گردوں کےحملوں پرمختلف عدالتوں میں ٹرائل کیوں؟ سویلینز ٹرائل سے متعلق کیس میں سوالات پر بحث

میری نظر میں پارلیمنٹ ، سپریم کورٹ اور جی ایچ کیو پر حملے ایک جیسے ہی ہیں تو تفریق کیوں؟ جسٹس امین الدین
اپ ڈیٹ 03 فروری 2025 06:33pm

دہشت گردوں کے حملوں پرمختلف عدالتوں میں ٹرائل کیوں، سپریم کورٹ میں سویلینزٹرائل سے متعلق کیس میں سوالات پر بحث کے دوران جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ کیا اس ملک میں احتجاج کرنا جرم ہے، اکیسویں ترمیم کا کیا بنا تھا، اکسیویں ترمیم ختم ہونے کے بعد کیسزمیں کورٹ مارشل کیسےہوگیا؟

جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بنچ نے سماعت کی ۔ جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے دلائل میں کہا کہ سویلنز کا کورٹ مارشل کسی صورت نہیں ہو سکتاجسٹس حسن اظہررضوی نے پوچھاکہ کیا دھماکہ کرنےوالےاورعام سویلنزمیں کوئی فرق نہیں ہے؟

آئینی بنچ نےسابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ پرعائد 20 ہزارروپے جرمانہ کا حکمنامہ واپس لےلیا ، سزا یافتہ مجرم ارزم جنید کے وکیل سلمان اکرم راجہ کے دلائل کا آغازکرتے ہوئے کہاکہ ایک جیسی ایف آئی آرمگرکچھ لوگوں کی کسٹڈی فوج کو دے دی گئی، جسٹس امین الدین نے کہاکہ وہ معاملہ ہمارے سامنے نہیں ہے۔

جوادایس خواجہ کےوکیل خواجہ احمد حسین نےدلائل کا آغازکرتے ہوئےکہا کہ خصوصی عدالتوں کاطریقہ کارشفاف ٹرائل کے تقاضوں کےبرخلاف ہے، عدالتوں میں ٹرائل کے طریقہ کارکے شفاف ہونےسےاتفاق نہیں کیا۔

جسٹس حسن اظہرنے کہا کہ کیا دھماکاکرنےوالےاورعام سویلینزمیں فرق نہیں؟ جس پرخواجہ احمد حسین نے جواب دیا کہ میں کسی دہشتگرد یاملزم کےدفاع میں دلائل نہیں دےرہا، سویلنزکاکورٹ مارشل ممکن ہوتا تواکیسویں ترمیم نہ کرنا پڑتی۔

عدالت نے کہا کہ 21ویں ترمیم میں توکچھ جرائم آرمی ایکٹ میں شامل کیےگئےتھے، وکیل خواجہ احمد حسین نے دلائل دیے کہ 21ویں ترمیم میں آرٹیکل 175 میں بھی ترمیم کی گئی، خصوصی عدالتوں میں فیصلے تک ضمانت کاتصورنہیں۔

جسٹس حسن اظہرنے کہا کہ 15دن میں فیصلہ ہوجائےتوضمانت ہونانہ ہوناسےکیاہوگا۔ وکیل خواجہ احمد حسین نے دلائل میں کہا کہ خصوصی عدالتوں میں اپیل کسی آزاد فورم پرجاتی ہےنہ مرضی کا وکیل ملتا ہے۔ آج برگیڈیئر(ر)فرخ بخت کیس پربھی دلائل دوںگا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ شکرہے پورا نام توپتا چلا ہم توایف بی علی ہی جانتے تھے۔

وکیل خواجہ احمد حسین نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایف بی علی کیخلاف فوج کوبغاوت پر اکسانے کا الزام تھا، ایف بی علی کاکورٹ مارشل ضیا الحق نے 1974 میں کیا، ایف بی علی نے بھٹوکی حکومت کاتختہ الٹنےکی کوشش کی تھی۔ کورٹ مارشل کرنیوالےضیاءالحق ترقی پاکرآرمی چیف بن گئے، ضیاء الحق کےآرمی چیف بننےپرجوہواوہ تاریخ ہے۔

جسٹس حسن رضوی نے ریمارکس دیے کہ اس دورمیں توکمانڈنٹ ان چیف اورایئرچیف بھی اغواتھے، اغواء کارنےاپنی کتاب میں وجوہات بھی تحریرکی ہیں، اس پرجسٹس مسرت ہلالی نے جسٹس حسن اظہررضوی سے سوال کیا کہ ویسےوجوہات کیا تھیں؟ جسٹس حسن اظہررضوی نے جواب دیا کہ اس کیلئے آپ کوکتاب پڑھنا پڑے گی۔

جسٹس حسن اظہررضوی کے جواب پرعدالت میں قہقہے لگے۔

جمعہ کو ہونے والی سماعت میں جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے دلائل پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ آرمی ایکٹ سویلین کا ٹرائل کرنے کے لیے ڈیزائن ہی نہیں کیا گیا، آپ عام شہریوں کو ایسے نظام کے حوالے نہیں کرسکتے۔ شل ممکن ہے تو عدالت کو قرار دینا پڑے گا کہ اکسیویں ترمیم بلاوجہ کی گئی۔

خواجہ احمد حسین نے کہا کہ اکسیویں ترمیم میں آرٹیکل 175 میں بھی ترمیم کی گئی، فوجی عدالتوں میں فیصلے تک ضمانت کا کوئی تصور نہیں۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے پوچھا کہ 15 دن میں فیصلہ ہوجائے تو ضمانت ہونے یا نہ ہونے سے کیا ہوگا۔ خواجہ احمد حسین نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں اپیل کسی آزاد فورم پر جاتی ہے نہ مرضی کا وکیل ملتا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل خواجہ احمد حسین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنے دلائل محدود رکھیں کہ کیا مرکزی فیصلہ درست تھا یا نہیں، آپ نے شیخ لیاقت حسین کیس کی مثال دی تھی، اس وقت پبلک اور آرمی میں براہ راست کوئی لڑائی نہیں تھی، غالباً ایک واقعہ کراچی میں ہوا تھا جس میں ایک میجر کو اغوا کیا گیا تھا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اکیسویں ترمیم میں تو سیاسی جماعت کو باہر رکھا گیا تھا، ہمارے سامنے سوال صرف یہ ہے کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق کس پر ہوگا، خدانخواستہ دہشتگردی کا ایک حملہ پارلیمنٹ، ایک حملہ سپریم کورٹ اور ایک حملہ جی ایچ کیو پر ہوتا ہے، پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ پر حملے کا ٹرائل انسداد دہشتگردی عدالت میں چلے گا، جی ایچ کیو پر حملہ ملٹری کورٹ میں چلے گا، میری نظر میں تینوں حملے ایک جیسے ہی ہیں تو تفریق کیوں اور کیسے کی جاتی ہے۔

ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین نے کہا کہ عدالت ایسا دروازہ نہ کھولے جس سے سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہو۔ جسٹس امین الدین بولے، ’ہم کوئی دروازہ نہیں کھول رہے، ہم نے صرف یہ دیکھنا ہے کہ اپیل منظور کی جاتی ہے یا خارج کی جاتی ہے‘۔

خواجہ احمد حسین نے دلائل دیے کہ وزارت دفاع کے وکیل نے دلائل میں کہا آرٹیکل 184 کی شق 3 کے تحت اپیل قابل سماعت ہی نہیں تھی، وزارت دفاع کے وکیل نے کہا جہاں آرٹیکل 8 کی ذیلی شق 3 اے اپلائی ہو وہاں درخواست قابل سماعت تھی، اگر اس کیس میں آرٹیکل 184 کی شق 3 کا اطلاق نہیں ہوسکتا تو پھر کسی اور کیس میں اطلاق ہو ہی نہیں سکتا۔

ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین نے کہا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے ہمیشہ آرٹیکل 184 کی شق 3 کے اختیار سماعت کو محتاط انداز میں استعمال کرنے کی رائے دی، ملٹری کورٹس میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی رائے دی کہ آرٹیکل 184 کی شق 3 کے تحت براہ راست درخواست قابل سماعت تھی۔

خواجہ احمد حسین نے کہا کہ 9 اور 10 مئی کے کیسز میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ لاگو کیا گیا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا اس ملک میں احتجاج کرنا جرم ہے۔ وکیل خواجہ احمد حسین بولے کہ احتجاج کرنا جرم نہیں مگر املاک کو نقصان پہنچانا جرم ہے۔ انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اہم سوال یہ ہے کہ کورٹ مارشل نہ ہو تو کیا ملزمان آزاد ہوجائیں گے، اس کا جواب یہ ہے کہ ملزمان آزاد نہیں ہوں گے کیونکہ انسداد دہشتگردی کا قانون موجود ہے۔

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سماعت ایک روزکیلئے ملتوی کردی۔

Supreme Court of Pakistan

Civilian's Trial in Special Court