سربیا میں حکومت مخالف مظاہرے، صدر نے وزیراعظم کو قربان کردیا
سربیا میں کئی ہفتوں سے جاری طلبہ کے حکومت مخالف مظاہروں کے دباؤ میں آکر صدر الیگزینڈر ووچچ نے اپنے وزیرِاعظم کو قربان کر دیا۔ وزیراعظم میلوس ووچیوچ، جو صدر ووچچ کے قریبی ساتھی اور حکمران جماعت سربین پروگریسو پارٹی کے نامزد رہنما تھے، نے اعلان کیا کہ وہ مستعفی ہو رہے ہیں تاکہ ملک میں کشیدگی مزید نہ بڑھے۔
امریکی اخبار ”نیو یارک پوسٹ“ کے مطابق یہ استعفیٰ صدر ووچچ کی جانب سے حکومت میں ”فوری اور جامع ردوبدل“ کے اعلان کے چند گھنٹوں بعد سامنے آیا۔ ووچچ، جو سربیا کی انتہائی منقسم سیاست میں مہارت رکھتے ہیں، پہلے بھی کئی بار اپنے اتحادیوں کو وقتی طور پر قربان کر چکے ہیں تاکہ اپوزیشن کو کمزور کیا جا سکے۔
ٹرمپ نے سرکاری ملازمین میں بم پھوڑ دیا، ملازمت چھوڑنے کی دھماکہ خیز پیشکش
احتجاج کی اصل وجہ کیا ہے؟
سربیا میں مظاہروں کی تازہ لہر نومبر میں شمالی شہر نووی ساد کے ایک حال ہی میں تزئین و آرائش شدہ ریلوے اسٹیشن میں پیش آنے والے حادثے کے بعد شروع ہوئی، جس میں 15 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
عوامی غصے کو دیکھتے ہوئے حکومت نے حادثے کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی کروائی اور تعمیرات، ٹرانسپورٹ اور تجارت کے وزرا کو برطرف کر دیا۔
تاہم طلبہ کی جانب سے مزید سخت مطالبات سامنے آئے، جن میں تعمیراتی منصوبے کے معاہدوں کی تفصیلات عوام کے سامنے لانے کا مطالبہ بھی شامل تھا، جسے چینی کمپنیوں اور ان کے ذیلی ٹھیکیداروں نے مکمل کیا تھا۔
احتجاج میں شدت، اپوزیشن کا عبوری حکومت کا مطالبہ
احتجاجی طلبہ کئی ہفتوں سے جامعات میں دھرنے دے رہے ہیں۔ منگل کو انہوں نے حکمران جماعت کے نووی ساد میں واقع دفتر کے باہر مظاہرہ کیا، جہاں ایک روز قبل حکومت کے حامیوں نے مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ احتجاجی نوجوانوں نے پارٹی کے دفتر کی دیواروں پر ”قاتل“، ”چور“ اور دیگر سخت نعرے تحریر کر دیے۔
سربیا کے جنوبی شہر نیش میں بھی حکومت مخالف مظاہرے جاری ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں نے بڑھتے ہوئے عوامی دباؤ کو دیکھتے ہوئے صدر ووچچ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایک ”عبوری حکومت“ قائم کریں۔
امریکا میں غیرقانونی تارکین وطن کے خلاف بڑا آپریشن، 7300 ملک بدر 2300 سے زائد گرفتار
صدر ووچچ کی حکمت عملی اور مغرب و روس کے ساتھ کشمکش
صدر ووچچ کو امید ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ احتجاج کی شدت میں کمی آئے گی۔ لیکن تجزیہ کاروں کے مطابق وزیراعظم کا استعفیٰ حکومت کے خلاف عوامی ردعمل کو کم کرنے میں ناکام رہے گا۔
سیاسی تجزیہ کار دراگومیر آنڈیلووچ کے مطابق، ’ وزیراعظم کا استعفیٰ صرف ایک اور چال ہے، اور عوام اس دھوکے میں نہیں آئیں گے۔’
صدر ووچچ، جو کبھی مغرب اور کبھی روس کے قریب جانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، ان دنوں امریکا اور یورپی یونین کی جانب سے شدید دباؤ میں ہیں۔ امریکا نے انہیں روس سے فاصلہ رکھنے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں سربیا نے خاموشی سے یوکرین کے لیے تقریباً ایک ارب ڈالر کے اسلحے اور گولہ بارود کی فروخت کو ممکن بنایا اور اقوام متحدہ میں روس کے خلاف قراردادوں کی حمایت کی۔
روس کی پشت پناہی اور سربیا میں مغربی اثر و رسوخ
اگرچہ سربیا نے مغربی پابندیوں میں شامل ہونے سے انکار کر دیا ہے، لیکن حکومت نے روسی حمایت یافتہ بیانیے کو اپناتے ہوئے مظاہروں کو ”غیر ملکی عناصر کی سازش“ قرار دیا ہے۔ سربیا نے حال ہی میں پانچ کروشین کارکنوں کو ملک بدر کیا، جن پر احتجاج کو ہوا دینے کا الزام تھا۔
کولمبیا نے امریکا کو جوابی کارروائی کی دھمکی دے دی
ماضی کے احتجاج اور حالیہ تحریک کا فرق
سربیا میں اس سے پہلے بھی حکومت مخالف مظاہرے ہوتے رہے ہیں، لیکن یہ اکثر بلغراد تک محدود رہے اور بالآخر دب گئے۔ لیکن اس بار نووی ساد میں ریلوے اسٹیشن کے حادثے اور کرپشن کے الزامات کے بعد مظاہروں نے ملک بھر میں زور پکڑ لیا ہے۔
یہ مظاہرے اتنے وسیع پیمانے پر ہو رہے ہیں کہ ان کا موازنہ سنہ 2000 میں سلوبودان میلوسووچ کی حکومت کے خلاف چلنے والی تحریک سے کیا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں سربیا کے اس آمرانہ حکمران کا اقتدار ختم ہو گیا تھا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر یہ احتجاج اسی شدت سے جاری رہا تو صدر ووچچ کی دہائی پر محیط حکمرانی کو بھی بڑا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
Comments are closed on this story.