Aaj News

جمعہ, جنوری 31, 2025  
01 Shaban 1446  

پیکاقانون میں اگرمسائل ہوں گےتودوبارہ جائزہ لیا جاسکتا ہے، سینیٹرافنان اللہ

فیک نیوز کی وجہ سےپاکستان میں کئی بارآگ لگ چکی ہے، لوگوں کی عزتیں اچھالی جاتی ہیں
شائع 2 دن پہلے
سینیٹرافنان اللہ
سینیٹرافنان اللہ

سینیٹرافنان اللہ نے کہا ہے کہ صحافی برادری یہ سمجھتی ہےکہ پیکاایکٹ میں کوئی تبدیلیاں ہونی چاہییں تو وہ تجاویزبنا کرحکومت سے بات کریں، ہم اس پرت بات چیت کرنےکےلیےتیارہیں۔

آج نیوزکے پروگرام اسپاٹ لائٹ میں منیزے جہانگیرکےساتھ گفتگو کرتے ہوئے سینیٹرافنان اللہ نے کہا کہ کچھ کمپنیاں پاکستان میں رجسٹرڈ ہیں جسیے فیس بک، انسٹا گرام اورٹک ٹاک وغیرہ اورجو کمپنیاں پاکستان میں نہیں ہیں انھیں ہمیں پاکستان آنےکے لیےکی ترغیب دینا ہوگی۔

رہنما مسلم لیگ نے کہا کہ جہاں تک بات انٹرنیٹ کی ہے تومیں اس کی ابتدا سے حامی رہا ہوں کہ لوگوں کوانٹرنیٹ کی سہولت دینی چاہیے تاکہ لوگ وہاں تعلیم حاصل کریں اورنوکریاں کریں۔ بنیادی طورپریہ ان لوگوں کیلئےمسائل ہوں گےجوسوشل میڈیا پرجھوٹ بیچ رہے ہیں۔ کیا یہ صحافت ہے کہ آپ یوٹیوب پرجاکرسفید جھوٹ بولیں اورپروپیگینڈا کریں اوراس پرپیسے بھی کمائیں۔ اس سے تو بدنام پوری صحافی برادری ہوتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ لوگوں کی سوشل میڈیا پر عزتیں اچھالی جاتی ہیں۔ عورتوں کوماؤں بہپنوں کےبارے میں جو بات کی جاتی ہے، انھیں غلیظ ترین گالیاں دی جاتی ہیں۔ یہ مسئلہ کتنے سالوں سے چل رہا ہے۔ فیک نیوز کی وجہ سے پاکستان میں کئی بارآگ لگ چکی ہے۔ ریپ والا معاملہ آپ کے سامنے تھا۔ جو لوگ سوشل میڈیا پوسٹوں پرگالیاں دیتے ہیں اس کا کیا علاج ہے؟ سوائے اس کے ان کے خلاف کوئی قانون بنایا جائے۔ اس مسئلے کا کوئی توحل ہوناچاہیے۔ ہم نے میڈیا سے متعلق 2023 میں ایک قانون پر مشاورت کی تھی، اس کا قانون کبھی پاس نہیں ہوا، کمیٹیوں کی میٹنگ چلتی رہی۔ ہم یہ نہیں چاہتے کہ سخت قانون پاکستان میں آئے۔

سینیٹرافنان اللہ نےکہا کسی بھی پلیٹ فارم کامعاملہ پہلےٹربیونل کےنیچےکسی فورم پرجائے گا وہاں سے سپریم کورٹ، اگریہ کام ٹھیک نہ ہواتوظاہرہےقانون کاکبھی بھی ریویوکیا جاستا ہے، یہ کوئی آئینی ترمیم نہیں ہے کہ جوبڑامشکل ہواوراگراس میں مسائل ہوں گےتوریویو کرلیں گے، صحافی برادری یہ سمجھتی ہے کہ اس میں کوئی تبدیلیاں لانی چاہییں تووہ تجاویزبنا کرحکومت سےبات کریں، ہم اس پرت بات چیت کرنےکےلیےتیارہیں،

اسپاٹ لائٹ میں گفتگو کرتے ہوئےڈیجیٹل رائیٹس ایکٹوسٹ اسامہ خلجی نے کہا کہ غلط معلومات وہ ہوتی ہےجوغلط خبرپرمبنی ہو لیکن اس میں آپ کی نیت بری نہیں ہوتی اورآپ غلط خبرچلا دیتے ہیں جبکہ ڈِس انفارمیشن پروپگینڈا ہوتا ہےجونیت ہوتی ہے کہ غلط خبرہو۔ اس میں آپ کیٹگریز بنائیں۔ اگرآپ کی نفرت انگیزتقریرہے تواس کی یہ سزا ہوگی جو تشددپراکسانے پرمبنی ہو۔

اسامہ خلجی نے کہا کہ افنان صاحب نے صحیح کہا کہ ان ساری چیزوں کی سزائیں ہونی چاہییں۔ پیکا کا سیکشن 8، 9، 10، 20 اور21 اسی سے متعلق ہیں۔ اس کےعلاوہ سائبرٹیررازم دیکھیں جو ایک جرم ہے۔ یہ قوانین استعمال ہوتےآ رہے ہیں۔ دس برسوں سے لوگ پیکا کے قانون کو کیوں تنقید کا نشانہ بناتے ہیں یہ موجودہےاوراس کا استعمال ہوتا رہتا ہے لیکن اس میں وسیع اصلاحات لےآنا اس میں اتنی بڑی سزائیں ڈال دینا یہ بہت انتہا ہے۔

انھوں مزید کہا کہ بڑی کمپنیوں میں آج ہی ایشیا انٹرنیٹ کولیشن کی طرف سے بیان آیا ہے کہ اس بل کو روک دیں اوراس پرمشاورت کریں۔ آپ پاکستان میں کمپنیزکوآنے کی ترغیب تو دیں، آپ ہردوسرے دن بلاک کررہے ہوتےان پلیٹ فارمزکو تووہ ترجیح نہیں کریں گے کہ انھیں پتا ہے کہ آپ بلاک کردیں گے۔

پی ٹی آئی کی سینیٹرزرقاتیمورنے کہا کہ یہ ایک ایشوہے اس پر بات ہونی چاہیے تھی، صحافی برادری کو آن بورڈ لینا چاہیے تھا۔ ایکسیسٹراکس حوالے سے ہے۔ بل پیپلزپارٹی اورن لیگ لائی ہے ہم تواپوزیشن میں ہیں۔ تحریک انصاف کو دیوار سے لگایا گیاہے۔

انھوں نے کہا کہ ہماری پارٹی کوتوڑنےکی ہرقسم کی کوشش کی گئی، کچھ اندرسےکچھ باہرسے میں خود سوشل میڈیا اورٹرالنگ کی متاثرہ ہوں، پارٹی کی وجہ سے۔ فیک نیوزکسی کے لیے بھی ہوغلط ہوتی ہے۔ ہربل کو اسٹنڈرڈ پریکسٹس کم ازکم ایک ماہ بات چیت کرنی چاہیے یہ کوئی طریقہ نہیں کہ آپ ایک دن میں بل لاتے ہیں۔ یہ پی ٹی آئی کی کمزوری نہیں یہ پارلیمنٹ کی کمزوری ہےکوئی بھی پارٹی یا حکومت ہو ہمیشہ یہی ہوتا ہےاوریہ غلط ہے۔

پروگرام میں پیپلزپارٹی سینیٹرضمیرگھمرونے کہا کہ صدرکے پاس اختیارہوتا ہے کہ وہ بل کو واپس بھیج دیں کہ پارلیمنٹ اس کو دوبارہ دیکھے۔ پارلیمنٹ کواختیارہے کہ بل اسی طرح ہویا اس میں ترمیم کی جائے۔ صدرکی تجاویزپارلیمنٹ کے سامنےرکھی جاتی ہیں۔ بل جب اصل فارم میں آیا تھا تو اس میں تین سال کی سزا نہیں تھی۔ زیادہ تھی اس میں جوسخت سزائیں ہیں وہ ہم قبول نہیں کریں گے۔

ضمیرگھمرونے کہا کہ سیکشن 45 کےتحت ججزتعینات کیے جاتے ہیں۔ ایف آئی اے کی عدالت الگ ہوتی ہیں اس میں اپیل ہوتی ہے پھرہائی کورٹ میں ہوتی ہےاورسپریم کورٹ میں۔ کسی کا پلیٹ فارم بلاک کیا گیا ہے وہ ٹربیونلزمیں میٹرزجائیں گے، اس میں رائیٹس اوراپیل موجود ہے۔

تین سال کی سزاکا معاملہ ٹربیونلزمیں نہیں جائےگا وہ کورٹ میں جائے گا، کسی کامیٹریل اگر بلاک کیا جائےگا وہ ٹربیونلزمیں جائےگا۔ عدالتوں پرکام کا دباؤزیادہ ہوتا ہے، ٹربیونلزاس لیےہےکہ اگرکوئی سوشل میڈیا بلاک کرتا ہےتو24 گھنٹوں میں رائٹس آف اپیل میں شامل ہوگا۔

Aaj News program

سپاٹلایٹ

Senator Afnan Ullah Khan