Aaj News

جمعہ, جنوری 31, 2025  
01 Shaban 1446  

ایڈیشنل رجسٹرار کیس: جسٹس منصور کے فیصلے میں توہین کرنے والوں میں چیف جسٹس کو بھی شامل کیا گیا، جسٹس جمال مندوخیل

ہمیں نوٹس دے دیتے ہم چار ججز ان کی عدالت میں پیش ہوجاتے، جسٹس محمد علی مظہر
اپ ڈیٹ 27 جنوری 2025 02:54pm

سپریم کورٹ کی جانب سے توہین عدالت کی کارروائی پر فیصلہ آنے کے بعد ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس نے انٹراکورٹ اپیل واپس لینے کی استدعا کردی ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کی سربراہی میں 6 رکنی بنچ نے ایڈشنل رجسٹرار نذر عباس کی جانب سے دائر کردہ انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ اپنا دعویٰ واپس لے سکتے ہیں درخواست نہیں، درخواست اب ہمارے سامنے لگ چکی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ اپنی اپیل کیوں واپس لینا چاہتے ہیں؟ جس پر نذر عباس کے وکیل نے کہا کہ توہین عدالت کا نوٹس واپس لے لیا گیا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایسا تھا تو آپ پہلے بتا دیتے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا توہین عدالت کارروائی ختم ہونے کا آرڈرآچکا ہے؟

جس پر نذر عباس کے وکیل نے جسٹس منصور علی شاہ کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے نذرعباس کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کمرہ عدالت سے باہرجانا چاہیں تو جا سکتے ہیں، جب توہین عدالت کی کارروائی ختم کردی گئی تو آرڈر کیسے دیا گیا، اس فیصلے میں تو مبینہ طور پر توہین کرنے والوں میں چیف جسٹس پاکستان کو بھی شامل کیا گیا، کیا مبینہ طور پر توہین کرنے والے فل کورٹ تشکیل دیں گے، مرکزی کیس آئینی بنچ کے سامنے سماعت کیلئے مقرر ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ توہین عدالت قانون میں پورا طریقہ کار بیان کیا گیا ہے، دونوں کمیٹیوں کو توہین کرنے والے کے طور پر ہولڈ کیا گیا، طریقہ کار تو یہ ہوتا ہے پہلے نوٹس دیا جاتا ہے، ساری دنیا کیلئے آرٹیکل 10اے کے تحت شفاف ٹرائل کا حق ہے، کیا ججز کیلئے آرٹیکل 10 اے دستیاب نہیں، جو فل کورٹ بنے گا کیا اس میں مبینہ توہین کرنے والے چار ججز بھی شامل ہوں گے،۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ہمیں نوٹس دے دیتے ہم چار ججز ان کی عدالت میں پیش ہوجاتے۔

جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ کیا انٹرا کورٹ اپیل میں وہ معاملہ جو عدالت کے سامنے ہی نہیں کیا اسے دیکھ سکتے ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ تو کیا ہم بھی فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کریں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ہم اٹارنی جنرل کو سن لیتے ہیں، مناسب ہوگا ججز کراس ٹاک نہ کریں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ شفاف ٹرائل کا حق سب کو ہے لیکن شاید ججز کو نہیں، ججز کو نوٹس کیے بغیر موقف سنے بغیر ہی توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا گیا۔

جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ جس عدالتی حکم پر تبصرہ ہورہا ہے وہ تو کسی نے چیلنج ہی نہیں کیا ہوا، کیا عدالت سوموٹو میں اس عدالتی حکم کا جائزہ لے سکتی ہے؟ چھ رکنی بنچ کے پاس سوموٹو لینے کا اختیار ہی نہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سوموٹو میں ہی ساری دنیا کو توہین عدالت کا ملزم بنایا گیا ہے، کیا اب ہم انٹرا کورٹ اپیلیں دائر کریں گے؟

جسٹس جمال مندوخیل نے ساتھی ججز کو درخواست کی کہ آپس میں ایک دوسرے کو جواب نہ دیں۔

اس دوران اٹارنی جنرل کی طلبی پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان عدالت میں پیش ہوئے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ خدا نہ خواستہ ہم کیس سن کر توہین عدالت تو نہیں کر رہے؟

جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ کیا یہ مقدمہ آئینی بنچ کو بھیجا جاسکتا ہے تاکہ دائرہ اختیار کا تعین ہوسکے؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ انٹرا کورٹ اپیل آئینی بنچ کو نہیں جا سکتی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہمارے سامنے کو جو اپیل تھی وہ غیر موثر ہوچکی ہے، عدالت کے سامنے کوئی کیس ہی نہیں تو کارروئی کس پر چل رہی ہے؟ جو کچھ ہو رہا ہے یہ عدلیہ کے اس ادارے کی بدقسمتی ہے، چھ ججز کے خط پر اگر سپریم کورٹ ڈٹ جاتی تو آج یہ حالات نہ ہوتے۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ کیا اب ہم فیصلہ سنانے والے ججز کو نوٹس جاری کریں گے؟

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ نوٹس جاری کرسکتے ہیں لیکن کریں گے نہیں، کمیٹی کے ایک ممبر نے خط بھی لکھا جس میں ہمارے مفادات کے ٹکراؤ کا ذکر ہے، کیا ہم پر اعتراض کرنے والے مقدمہ میں فریق تھے؟ اعتراض کرنے والے کو پہلے میرا مفاد اور پھر ٹکراؤ ثابت کرنا ہوگا، میرا کہیں ذاتی مفاد ہو تو کیس نہیں سنوں گا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ہمارا انٹرسٹ آئین کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہمارے سیاستدان ہوں یا عوام ماضی کی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھتے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے بنچ سے الگ ہونے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر یہ بنچ کارروائی جاری رکھنا چاہتا ہے تو میں بنچ سے الگ ہوجاؤں گا، ہمارے سامنے اس وقت کوئی کیس ہے ہی نہیں، ہمارے سامنے جو اپیل تھی وہ غیرموثر ہوچکی ہے، اگر بنچ کارروائی جاری رکھنا چاہتا ہے تومیں معذرت کروں گا

جسٹس اطہرمن اللہ نے مزید کہا کہ آج ایک سینئر سیاستدان کا بیان چھپا ہوا ہے کہ ملک میں جمہوریت نہیں ہے، ملک کو آئین کے مطابق نہیں چلایا جا رہا، بدقسمتی ہے کہ تاریخ سے سبق نہ ججز نے سیکھا، نہ سیاستدانوں اور نہ ہی قوم نے، چھ ججز کا عدلیہ میں مداخلت کا خط آیا تو سب نے نظریں ہی پھیر لیں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جسٹس اطہر من اللہ تیسری مرتبہ یہ بات کہ رہے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم صرف اٹارنی جنرل کو سننا چاہتے ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ موجودہ بنچ کے سامنے کوئی کیس ہی نہیں تو اٹارنی جنرل کو کس نکتے پر سننا ہے؟

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جس علاقہ سے تعلق رکھتا ہوں وہاں روایات کا بہت خیال رکھا جاتا ہے، بدقسمتی سے اس مرتبہ روایات کا بھی خیال نہیں رکھا گیا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا آپ نے دو رکنی بنچ میں فل کورٹ کی استدعا کی تھی؟ جس پر وکیل شاہد جمیل نے کہا کہ اس بنچ میں بھی استدعا کر رہا ہوں کہ فل کورٹ ہی اس مسئلے کو حل کرے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر ہم آرڈر کریں اور فل کورٹ نہ بنے تو ایک اور توہین عدالت شروع ہوجائے گی، آج یہ مفادات والے معاملے پر مجھے بول لینے دیں، آئینی بنچ میں شامل کرکے ہمیں کون سی مراعات دی گئی ہیں؟ ہم دو دو بنچ روزانہ چلا رہے ہیں یہ مفادات ہیں؟ اگر آئینی بنچ میں بیٹھنا ہمارا مفاد ہے تو پھر جو نہیں شامل وہ متاثرین میں آئیں گے، مفادات والے اور متاثرین دونوں یہ کیس پھر نہیں سن سکتے، ایسی صورت میں پھر کسی ہمسایہ ملک کے ججز لانا پڑیں گے، کوئی ایک وکیل مجھے بتا دے ہمیں آئینی بنچ میں بیٹھ کر کیا مفاد مل رہا ہے؟ ہمارا واحد مفاد آئین کا تحفظ کرنا ہے، کیا ہم خود شوق سے آئینی بنچ میں بیٹھے ہیں؟

سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذرعباس کی انٹرا کورٹ اپیل واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دیا۔

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ بنچ کی اکثریت انٹراکورٹ اپیل نمٹانے کی وجوہات دے گی۔

جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس شاہد وحید نے درخواست بغیر وجوہات واپس لینے کی بنیاد پر نمٹایا۔

جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی وجوہات جاری کریں گے۔

عدالت نے کہا کہ ایڈیشنل رجسٹرار نے شوکاز ڈسچارج ہونے پر اپیل واپس لینے کی استدعا کی، انٹرا کورٹ اپیل واپس لینے پر نمٹائی جاتی ہے۔

Supreme Court of Pakistan

intra court apeal

Additional Registrar Contempt of Court Case