کشتی حادثے میں بچنے والے پاکستانیوں کے گزارے 13 دنوں کے دہل دہلا دینے والے انکشافات
مراکش کے ساحل کے قریب ڈوبنے والی کشتی کے مسافر یورپ جانے کے خواہشمند تھے مگر اس خطرناک سمندری سفر کے دوران انھیں نہ صرف بھوک اور پیاس میں تنہا چھوڑ دیا گیا، اسمگلروں نے بعض تارکین وطن کو تشدد کا نشانہ بنا کر سمندر میں پھینک دیا، اس لاوارت کشتی میں بچ جانے والے افراد کے گزارے 13 دنوں کے خوفناک اور دل ہلا دینے والے انکشافات سامنے آئے ہیں۔
مراکش کشتی حادثے میں کامونکی کے 2 نوجوانوں کی موت کی تصدیق ہوگئی
مراکشی حکام نے اس واقعے میں 36 افراد کو بچایا ہے جنھیں بندرگاہ دخلہ کے قریب ایک خیمے میں رکھا گیا ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے بچنے والے 21 پاکستانی شہریوں کی فہرست جاری کی ہے۔
کشتی کے اس 13 روزہ سفر سے زندہ بچنے والے افراد کا کہنا ہے کہ اسمگلروں کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر ان پر تشدد کیا جاتا تھا اور بعض مسافروں کو سمندر میں پھینک دیا گیا۔
مراکش کی بندرگارہ دخلہ کے قریب کشتی حادثے میں بچنے جانے والے پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے عزیر بٹ کے مطابق یہ سفر نئے سال کے آغاز پر 2 جنوری کو شروع ہوا تھا مگر اسے 5 جنوری کو سمندر کی ویرانی میں روک دیا گیا تھا۔
اسپین کشتی حادثہ : 12 پاکستانیوں کو مبینہ طور پر قتل کرنے کا انکشاف
عزیر بٹ نے بتایا کہ پانچ جنوری کو رات کی تاریکی میں کشتی کو ایسے ویران مقام پر روک دیا گیا تھا جہاں سے کوئی دوسری کشتی نہیں گزر رہی تھی۔
انہوں نے کہا کہ کچھ دن بعد اسمگلروں نے کچھ لوگوں کو ایک دوسری کشتی میں سوار کیا، جس پر باقی مسافروں کی اسمگلروں سے تلخ کلامی ہوئی۔ انہوں نے کشتی پر موجود سردی گرمی سے بچانے والا ترپال، کپڑے، کھانے پینے کی اشیا، موبائل سب کچھ چھین لیا اور کشتی کو بند کر کے دوسری کشتی میں بیٹھ کر چلے گئے۔
عزیر بٹ کا کہنا تھا کہ اسمگلروں نے کشتی کو لاک کیا ہوا تھا۔ وہ پانی کی سطح پر خود بھی بہت زیادہ نہیں چل سکتی تھی۔ بس تھوڑا بہت اِدھر اُدھر ہوتی تھی۔
مراکش کشتی حادثے پر وزیراعظم کا اظہار افسوس، ترجمان دفترخارجہ کا بیان بھی آگیا
انہوں نے کہا کہ وہ اذیت کی پہلی رات تھی۔ وہ ایسی رات تھی جو اکثریت لوگوں نے رو کر گزاری۔ کھلا آسمان سمندر، سردی اور ہم لوگ تھے۔ ہمیں نہیں پتا تھا کہ یہ رات تو کچھ نہیں آنے والے دن اور رات انتہائی خوفناک ہونے والے تھے۔
حادثنے میں بچنے والے پاکستانی شہری مہتاب شاہ اس وقت دخلہ میں قائم ایک کیمپ میں موجود ہیں اور ان کا تعلق بھی گجرات سے ہے۔
مہتاب شاہ نے کہا کہ جب اندھیرا چھٹا اور صبح ہوئی تو کچھ لوگ ایک اورکشتی میں سوار ہو کر آئے اورانہوں نے ہمارا جائزہ لیا اور منڈی بہاوالدین کے چار لڑکوں کو تھوڑا آگے بلایا۔ ان کے پاس چھوٹے ہتھوڑے تھے۔ ان ہتھوڑوں سے ان کے چہروں اور سر پر ضربیں لگائی اور پھر انھیں اُٹھا کر سمندر میں پھینک دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان چار لڑکوں کو تو سمندر میں پھینکا گیا مگر وہاں پر موجود باقی سب لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور لاتوں، مکوں اور ڈنڈوں سے مارا گیا۔ ہم لوگ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ وہ ہمیں کیوں تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
مہتاب شاہ کا کہنا تھا کہ مار پیٹ کا سلسلہ چند گھنٹوں تک جاری رہا۔ وہ ایک ایسا علاقہ تھا جہاں پر سمندر میں کوئی بھی کشتی نہیں گزر رہی تھی۔ ہمیں کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ مدد مانگیں تو کس سے مانگیں۔
مہتاب شاہ نے بتایا کہ 10 دنوں تک اسمگلر روزانہ ایک دوسری کشتی پر وہاں پہنچتے تھے اور کچھ لوگوں پر تشدد کر کے انھیں سمندر میں پھینک دیتے تھے۔
عزیر بٹ کہتے ہیں کہ ہمیں کوئی مدد نہیں مل رہی تھی، بھوک اور پیاس سے ہماری یہ حالت ہو چکی تھی کہ ہم اٹھ کر بیٹھ نہیں سکتے تھے۔ کئی لوگ انتہائی بیمار ہوچکے تھے۔ کئی لوگوں نے وہاں پر اپنے گھر والوں کے لیے اونچی آواز میں وصیّتیں اور آخری پیغامات دیے کہ اگر کوئی بچ جائے تو وہ ضرور یہ پیغام ان کے گھر والوں تک پہنچا دے۔
مراکش کشتی حادثہ، ظلم و بربریت کی خوفناک داستان
ان کا کہنا تھا کہ اب صورتحال یہ ہوچکی تھی کہ ہمارا گلا اتنا خشک تھا کہ ہم لوگ سمندر کا پانی پیتے تھے۔ کچھ میں تو اتنی سکت بھی نہیں تھی کہ وہ ہاتھ کو نیچے کر کے سمندر کا پانی پی سکیں۔ جسم پر صرف ایک جوڑا کپڑوں کا تھا، حالت اتنی غیرتھی کہ بتایا نہیں جاسکتا ہے۔
عزیر بٹ کا کہنا تھا کہ اب اسمگلر دن کے وقت کسی وقت بھی پہنچ جاتے تھے۔ وہ لوگ جب آتے تو سب سے پہلے ہماری گنتی کرتے کہ پورے ہیں کہ نہیں۔ اس کے بعد دیکھتے کہ کون زیادہ نڈھال اور بیمار ہے، اس کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دیتے تھے۔
اس واقعے میں ہلاک ہونے والے دو کزن عاطف اور سفیان کے رشتہ دار احسن شہزاد کا کہنا ہے کہ کشتی میں سوار کئی افراد کا تعلق گجرات سے ہے، ان کہنا تھا کہ اسپین پہنچانے کے لیے فی کس ایجنٹ کو 35 لاکھ روپے ادا کیے گئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب کشتی سمندر میں کھڑی تھی تو اس وقت میرا ایجنٹ سے رابطہ ہوا اوراس نے بھی میرے ساتھ کچھ ایسی بات کی کہ حالات بہت خراب ہیں۔ کوشش کررہے ہیں کہ حالات بہتر ہوجائیں اور جب یہ اطلاعات آئیں تو ایجنٹ منظر عام سے غائب ہوچکا تھا۔
بچ جانے والے ایک اورشخص احسن شہزاد کا کہنا تھا کہ عاطف اورسفیان دونوں پہلے دبئی میں ہوتے تھے۔ دبئی میں کام کچھ اچھا نہیں تھا تو یہ یورپ جانے کے لیے تیار ہوگئے۔
عاطف کو تو ظالموں نے پہلے ہی مار دیا تھا جبکہ سفیان 13ویں دن بھوک، بیماری، تھکاوٹ اور پیاس کے ہاتھوں کشتی ہی میں مر گیا۔ ہم اپیل کرتے ہیں کہ اِن بچوں کی لاشوں کو پاکستان واپس لایا جائے۔ عاطف اور سفیان نے سوگواران میں بیوہ اور بچے چھوڑے ہیں۔
لیبیا کشتی حادثہ کیس: مرکزی ملزم کو 60 سال قید اور 42 لاکھ روپے جرمانے کی سزا
احسن نے بتایا کہ جب 24 سالہ سفیان اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا تو انھوں نے وہاں لڑکوں کو پیغام دیا کہ میرے گھر اور بچوں کو بتانا کہ تمھارا والد تمھارے اچھے مستقبل کی خواہش میں زندگی کی بازی ہار گیا ہے۔
یاد رہے اسپین میں مراکشی کشتی حادثے میں 86 افراد میں کم از کم 50 لوگ ہلاک ہوئے ہیں جن میں سے 44 پاکستانی شہری جان کی بازی ہار گئے تھے۔
ہر سال سینکڑوں پاکستانی شہری اسمگلروں کی مدد سے زمینی اور سمندری راستوں سے یورپ پہنچنے کی کوششوں کے دوران ہلاک ہوتے ہیں۔ پاکستان میں حکام کے مطابق انسانی اسمگلروں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے۔
2023 کے دوران یونان کے ساحل کے قریب قریب 350 پاکستانیوں کو لے جانی والی کشتی الٹ گئی تھی جسے بحر اوقیانوس کے سب سے ہلاک خیز واقعات میں شمار کیا جاتا ہے۔
Comments are closed on this story.