Aaj News

بدھ, جنوری 15, 2025  
14 Rajab 1446  

اے پی ایس حملے میں گٹھ جوڑ موجود تھا تو فوجی عدالت میں ٹرائل کیوں نہیں ہوا؟ جسٹس جمال مندوخیل

م ملٹری ٹرائل میں جرم کی نیت نہ ہونے کا دفاع لے سکتا ہے، جسٹس امین الدین
شائع 15 جنوری 2025 11:15am

جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رکنی آئینی بینچ نے آج بھی فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی۔

جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسثس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن بھی بینچ کا حصہ ہیں۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے آض بھی دلائل جاری رکھے۔

خواجہ حارث نے آج عدالت میں دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلوں میں ملٹری کورٹس تسلیم شدہ ہیں، آرمی ایکٹ کے تحت جرم کا گٹھ جوڑ ہو تو ملٹری ٹرائل ہوگا، ملٹری کورٹ میں آرمی ایکٹ کے تحت جرم کا ٹرائل ہوتا ہے، بات سویلین کے ٹرائل کی نہیں ہے، سوال آرمی ایکٹ کے تحت ارتکاب جرم کے ٹرائل کا ہے۔

پانچ رکنی بینچ کی کالعدم کی گئی دفعات کے تحت سویلین کا خصوصی عدالتوں میں ٹرائل ہو ہی نہیں سکتا، جسٹس نعیم اختر افغان

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ جرم کے گٹھ جوڑ سے کیا مراد ہے، جس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ گٹھ جوڑ سے مراد جرم کا تعلق آرمی ایکٹ سے ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ کیا گٹھ جوڑ کے ساتھ جرم کا ارتکاب کرنے والے کی نیت بھی دیکھی جائے گی۔

جسٹس امین الدین بولے کہ ملزم ملٹری ٹرائل میں جرم کی نیت نہ ہونے کا دفاع لے سکتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ملزم کہہ سکتا ہے کہ میرا یہ جرم کرنے کا ارادہ نہیں تھا۔

خواجہ حارث نے کہا کہ اگر جرم کا تعلق آرمی ایکٹ سے ہے تو ٹرائل فوجی عدالت کرے گی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ نیب کا جائزہ تو ٹرائل کے دوران لیا جاسکتا ہے۔

دوران سماعت وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے 21ویں آئینی ترمیم کیس کے فیصلے کا حوالہ دیا تو جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ یہ ترمیم مخصوص مدت اور حالات میں کی گئی تھی، پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملہ ہوا تھا، کینٹ ایریا میں آرمی اسکول پر حملہ ہوا، تب بھی ٹرائل فوجی عدالت میں ممکن نہیں تھا، دہشتگردوں کا فوجی عدالت میں ٹرائل کرنے کے لیے آئین میں ترمیم کرنا پڑی، عدالتی فیصلے میں دفاع پاکستان پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے سے کلبھوشن جیسے جاسوس کا بھی خصوصی کورٹس میں ٹرائل نہیں چل سکتا، وکیل وزارت دفاع

خواجہ حارث نے کہا کہ فیصلے کے مطابق دفاع پاکستان میں دہشتگردی اور جنگی صورتحال دونوں کا ذکر ہے، زمانہ امن، حالت جنگ اور دہشتگردی کی صورت میں ملکی دفاع کی نوعیت مختلف ہے۔

خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ جرم کی نوعیت سے طے ہوتا ہے ٹرائل کہاں چلے گا، اگر سویلین کے جرم کا تعلق آرمڈ فورسز سے ہو تو ٹرائل ملٹری کورٹ میں جائے گا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم نیت کو بھی دیکھ سکتے ہیں کہ جرم کرنے والے کا مقصد کیا تھا، کیا جرم کا مقصد ملک کے مفاد کے خلاف تھا۔

خواجہ حارث نے نشاندہی کی کہ عدالت کا پوچھا گیا سوال شواہد سے متعلق ہے، سپریم کورٹ براہ راست شواہد کا جائزہ نہیں لے سکتی۔

جسٹس محمد علی مظہر بولے کہ جرم کرنے والے کی نیت کیا تھی، یہ ٹرائل میں طے ہوگا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میں مانتا ہوں شواہد کی بنیاد پر ہی نیت کو جانچا جائے گا، لیکن پہلے بنیادی اصول تو طے کرنا ہے۔

سویلینز کا خصوصی عدالتوں میں ٹرائل: آئینی بینچ نے ملٹری کورٹ میں پیش کئے گئے شواہد کا جائزہ لینے کا مطالبہ کردیا

جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ ڈیفنس آف پاکستان سے کیا مراد ہے۔

خواجہ حارث نے جواب میں کہا کہ جنگ کے خطرات ڈیفنس آف پاکستان سے جڑے ہوئے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جسٹس حسن اظہر رضوی صاحب نے ایک سوال کیا تھا کہ جی ایچ کیو اور ایئر بیس کراچی پر حملے کے کیس ملٹری کورٹس میں کیوں نہیں گئے، اس سوال کا جواب 21ویں آئینی ترمیم فیصلے میں موجود ہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ 21ویں آئینی ترمیم کیس میں جی ایچ کیو حملہ، ایئر بیس حملہ، فوج پر حملے، عبادت گاہوں پر حملوں کا تفصیلی ذکر ہے، 21ویں آئینی ترمیم جنگی صورتحال کے لیے کی گئی تھی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 21ویں آئینی ترمیم اس لیے کی گئی کیونکہ ملٹری ٹرائل نہیں کرسکتے تھے۔

خواجہ حارث بولے کہ ملٹری ٹرائل ہوسکتا تھا آئینی ترمیم کی وجہ کچھ اور تھی، وہ ملزمان 2 ون ڈی ون کے جرائم میں نہیں آتے تھے، ان ملزمان کو قانون کے دائرہ میں لانے کے لیے آئینی ترمیم کی گئی، 9 مئی واقعات کے ملزمان 2 ون ڈی ون کے دائرہ میں آتے ہیں، 9 مئی کے ملزمان کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہی ہوگا.

جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ملٹری کورٹ کو تسلیم کرتے ہیں۔

خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ 2 ون ڈی ون کا سیکشن 1967 سے آرمی ایکٹ میں شامل ہے، آج تک کے عدالتی فیصلوں میں اس شق کی توثیق کی گئی، 21 ویں ترمیم والے بینچ نے 2 ون ڈی ون کو تسلیم کیا، آئین کے آرٹیکل 8 کی ذیلی شق 3 میں بنیادی حقوق کا جائزہ نہیں ہوسکتا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا سانحہ آرمی پبلک اسکول میں گٹھ جوڑ موجود تھا، جس پر خواجہ حارث نے تسلیم کیا کہ اے پی ایس حملے کے وقت گٹھ جوڑ بالکل موجود تھا۔

خواجہ حارث نے دلائل پیش کیے کہ ایک گٹھ جوڑ یا تعلق کسی فوجی افسر اور دوسرا فوج سے متعلقہ جرم سے ہوتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ اے پی ایس حملے کے وقت آرمی ایکٹ موجود تھا۔

خواجہ حارث نے جواب دیا کہ آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ سانحہ آرمی پبلک اسکول کے وقت بالکل موجود تھا، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ گٹھ جوڑ اور آرمی ایکٹ کے ہوتے ہوئے بھی فوجی عدالت میں ٹرائل کیوں نہیں ہوا، فوجی عدالت میں دہشتگردوں کے ٹرائل کے لیے آئین میں ترمیم کیوں کرنا پڑی۔

خواجہ حارث نے کہا کہ ترمیم میں ڈسپلن اور فرائض کی انجام دہی سے ہٹ کر بھی کئی جرائم شامل کیے گئے تھے۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ 21ویں آئینی ترمیم کیس کے فیصلے میں قانون سازی کی نیت کا پہلو بھی دیکھا گیا، خواجہ صاحب آپ نے فیصلے کے اس پہلو کو نظرانداز کردیا۔

دوران سماعت رضا ربانی کے سینیٹ میں بہائے گئے آنسوئوں کا تذکرہ بھی ہوا۔

جسٹس حسن اظہر رضوی بولے کہ سینیٹ کے سابق چیئرمین 21ویں ترمیم کو ووٹ دے کر روئے بھی تھے، ان کے آنسو بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ووٹ نہ دیتے تو زیادہ سے زیادہ سیٹ چلی جاتی۔

خواجہ حارث نے کہا کہ ان کے رونے کی شاید وجہ یہ نہیں تھی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ رضا ربانی نے خود عدالت میں بتایا تھا کہ ان کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے تھے، ان کی 18ویں آئینی ترمیم کے لیے بہت خدمات ہیں، وہ بااصول آدمی ہیں، ان کا ووٹ دے کر رونا سمجھ آتا ہے، انہیں علم تھا کہ وہ انہوں نے دراصل کیا کیا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ووٹ دینے کے بعد دو سال تک وہ ناراض بھی رہے تھے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ میں اس پر کوئی تبصرہ نہیں کروں گا۔

بعدازاں، عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔

Supreme Court of Pakistan

Civilian's Trial in Special Court