لوگوں کا کور کمانڈر ہاؤس جانا سکیورٹی بریچ، کسی فوجی افسر کا ٹرائل ہوا؟ جسٹس حسن اظہر رضوی
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے آج بھی فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت کی ہے۔ اس دوران جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دئے کہ لوگ کیسے بغیر ہتھیاروں کے کورکمانڈر ہاؤس میں پہنچ گئے، لوگوں کا کور کمانڈر ہاؤس کے اندر جانا تو سیکیورٹی بریچ ہے۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ سازش کرنے والے یا ماسٹر مائنڈ کا ٹرائل بھی ملٹری کورٹ میں ہی ہوگا۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی۔ جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسثس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن بھی بینچ کا حصہ ہیں۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے آج اپنے دلائل کا آغاز لیاقت حسین کیس کا حوالہ دے کر کیا اور کہا کہ یہ سول جرائم میں ملٹری کورٹ میں سویلین کے ٹرائل کا مقدمہ ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ دیکھنا یہ ہے کہ کن سویلینز کا کن حالات میں ٹرائل ہوسکتا ہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ کسی فوجی کو کام سے روکنے پر اکسانے کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت ہوگا، سپریم کورٹ ماضی میں قرار دے چکی ہے کہ ریٹائرڈ اہلکار سویلینز ہوتے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل بولے کہ آپ کا سارا انحصار ایف بی علی کیس پر ہے، ایف بی علی کیس میں ریٹائرڈ اور حاضر سروس افسران دونوں ملوث تھے۔
انہوں نے سوال کیا کہ کیا موجودہ کیس میں کسی پر فوج کو کام سے روکنے پر اکسانے کا الزام ہے، آرمی ایکٹ کے تحت تو جرم تب بنے گا جب کوئی اہلکار شکایت کرے یا ملوث ہو۔
آرٹیکل 191 اے کے ذریعے عدالت سے دائرہ اختیار چھینا گیا، جسٹس منصور علی شاہ
خواجہ حارث نے کہا کہ فوج کا ڈسپلن جو بھی خراب کرے گا وہ فوجی عدالت میں جائے گا۔ جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ کیا فوج کے قافلے پر حملہ کرنا بھی ڈسپلن خراب کرنا ہوگا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کسی فوجی کا چیک پوسٹ پر سویلین سے تنازع ہو تو کیا یہ بھی ڈسپلن خراب کرنا ہوگا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آرمی ایکٹ کا دائرہ جتنا آپ وسیع کررہے ہیں، اس میں تو کوئی بھی آسکتا ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے خواجہ حارث سے کہا کہ اس پہلو کو مدنظر رکھیں کہ ایف بی علی کیس مارشل لا دور کا ہے، ذوالفقار علی بھٹو اس وقت سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھے، انہیں ہٹانے کی کوشش میں ایف بی علی کیس بنا تھا، مارشل لا اس وقت ختم ہوا جب آئین بنا۔
خواجہ حارث نے جواب دیا کہ بات ٹھیک ہے لیکن عدالتی فیصلے میں ایمرجنسی کے نفاذ کا ذکر موجود نہیں۔
خواجہ حارث نے جواب دیا کہ بات ٹھیک ہے لیکن عدالتی فیصلے میں ایمرجنسی کے نفاذ کا ذکر موجود نہیں، ایف بی علی کیس میں جن افراد پر کیس چلایا گیا وہ ریٹائرڈ تھے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے سے کلبھوشن جیسے جاسوس کا بھی خصوصی کورٹس میں ٹرائل نہیں چل سکتا، وکیل وزارت دفاع
جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ کنٹونمنٹ میں اگر کسی سپاہی کا سویلین کیساتھ اختلاف ہو جائے تو کیس کہاں جائے گا۔
خواجہ حارث نے کہا کہ اختلاف الگ بات ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ملٹری ٹرائل کے معاملے کو بہت وسعت دی جا رہی ہے۔
خواجہ حارث نے جواب میں کہا کہ زمانہ امن میں بھی ملٹری امور میں مداخلت کرنے پر سویلین کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہی چلے گا۔
جسٹس حسن اظہر بولے کہ آخر کوئی ماسٹر مائنڈ بھی ہوگا، سازش کس نے کی۔
جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ سازش کرنے والے یا ماسٹر مائنڈ کا ٹرائل بھی ملٹری کورٹ میں ہی ہوگا، سویلین کا ٹرائل اچانک نہیں ہورہا، 1967 سے قانون موجود ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ صاحب آپ وزارت دفاع کے وکیل ہیں، ایک اہم سوال کا جواب دیں کہ کیا 9 مئی کے واقعات میں کسی فوجی افسر کے ملوث ہونے پر ٹرائل ہوا، لوگ کیسے بغیر ہتھیاروں کے کورکمانڈر ہاؤس میں پہنچ گئے، لوگوں کا کور کمانڈر ہاؤس کے اندر جانا تو سیکیورٹی بریچ ہے۔
خواجہ حارث نے جواب دیا کہ مظاہرین پر الزام املاک کو نقصان پہنچانے کا ہے، 9 مئی کے واقعہ میں کسی فوجی افسر کا ٹرائل نہیں ہوا۔
جسٹس جمال مندوخیل بولے کہ ایف بی علی پر الزام ادارے کے اندر کچھ لوگوں سے ملی بھگت کا تھا، ادارے کے اندر سے کسی کی شراکت ثابت ہونا لازم ہے، ادارہ افراد پر ہی مشتمل ہوتا ہے، اندر کے افراد سے تعلق کا بتائیں، خواجہ صاحب میرا آپ سے ایک تعلق ہے، کیا یہ اس کیس میں ہماری ملی بھگت بھی نہیں بن جائے گا، جو جرم سرزد ہوا اس میں ہم دونوں کا تعلق تھا یا نہیں، وہ بتانا لازم ہوگا، یہ بہت اہم نکتہ ہے اس کو نوٹ کرلیں۔
خواجہ حارث نے جواب دیا کہ اگر میں کسی دفاع کے ادارے سے جا کر بندوق چرا لوں تو اس کا بھی ٹرائل وہیں ہوگا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ بندوق چوری میں پھر اندر سے کیا تعلق ثابت ہوگا، جس بندوق سے سپاہی نے جنگ لڑنا تھی وہ چوری کرلینا اس کو کام سے روکنا ہی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ پھر یہ بتائیں بندوق چوری کی ایف آئی آر کہاں ہو گی، 9 مئی کو کئی لوگ تو ویسے ہی چلے جارہے تھے، انہیں کچھ پتا نہیں تھا کہا جا رہے ہیں۔
خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ان تمام لوگوں کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں نہیں چلا، میں ملزمان کی تفصیل پیش کروں گا، ڈسپلن کے بغیر فوج جنگ نہیں لڑسکتی، فوج کے فرائض میں رکاوٹ بھی ڈسپلن کی خلاف ورزی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ ایکٹ کے اطلاق کو کتنا پھیلایا جا سکتا ہے، اے ٹی اے آرمی ایکٹ سے سخت قانون ہے، اے ٹی اے میں سزائیں زیادہ ہیں، رعایتیں بھی نہیں ملتی۔
بعدازاں، عدالت نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کل تک ملتوی کردی۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث دلائل جاری رکھیں گے۔