تاج محل کو ڈیزائن کرنے والے کی تنخواہ کیا تھی؟ آج کے بڑے بڑے باسز غریب نظر آئیں گے
تاج محل کا نام آتے ہی ذہن میں محبت کی ایک لازوال داستان، شان و شوکت، اور فن تعمیر کا عظیم شاہکار آجاتا ہے۔ یہ یادگار نہ صرف ایک عمارت ہے بلکہ جذبات، محبت، اور انسان کے تخلیقی جوہر کا ایک خوبصورت امتزاج بھی ہے جو ایسی داستان ہے جو صدیوں سے دلوں کو چھو رہی ہے۔
تاج محل، دنیا کے سات عجائبات میں سے فن تعمیر کا ایسا شاہکار ہے جو فارسی، عثمانی، ہندوستانی اور اسلامی طرزتعمیر کا خوبصورت امتزاج پیش کرتا ہے۔
یہ شاندار سفید سنگ مرمر کا مقبرہ مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے 1632 میں اپنی محبوب بیوی ’ممتاز محل‘ کی یاد میں تعمیر کروایا تھا، یہ عمارت 1632ء سے 1650ء تک کل 25 سالوں میں مکمل ہوئی-
تاریخی سنگ میل عبور: پاکستان کا خلائی مشن چاند کے سفر پر گامزن
تاج محل دریائے جمنا کے دائیں کنارے 17 ہیکٹر پر محیط ایک وسیع مغل باغ میں واقع ہے۔ اس کی تعمیر میں معمار، سنگ تراش، نقش و نگار کرنے والے، خطاط اور دیگر کاریگر شامل تھے، جنہیں نہ صرف مغل سلطنت بلکہ وسطی ایشیا اور ایران سے بھی طلب کیا گیا تھا۔
یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کے مطابق، تاج محل کے مرکزی معمار استاد احمد لاہوری تھے-
استاد احمد لاہوری اپنے دور کے بہترین معماروں میں سے ایک تھے، جنہیں ان کی خدمات کے عوض 10 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ دی جاتی تھی، جو افراط زر کے لحاظ سے آج کےجدید دور کے کئی بڑے بڑے CEO’s کی سالانہ کمائی سے بھی زیادہ ہے۔
استاد احمد لاہوری نے شاہ جہاں کے مشہور’ لال قلعہ’ کے لیے بھی اپنی مہارت پیش کی۔
1983 میں تاج محل کو یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کا درجہ دیا گیا، اور اسے محبت کی علامت کے طور پر دنیا بھر سے لاکھوں سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے والا مقام قرار دیا گیا۔ آج ’تاج محل‘ نہ صرف آگرہ بلکہ اتر پردیش کے سب سے مشہور سیاحتی مقام کے طور پر ایودھیا سے بھی آگے ہے۔
ناروے کا وہ مقام جہاں کام کیلئے نہ ویزا کی ضرورت ہے اور نہ کسی اجازت کی
یہ عظیم یادگار اپنے شاندار ڈیزائن، پیچیدہ نقش و نگار اور تاریخی اہمیت کی وجہ سے دنیا بھر میں ہندوستان کی پہچان بن چکی ہے، جو محبت کی طاقت اور فن تعمیر کی بے مثال مہارت کی گواہی دیتی ہے۔