سورج نیلا کیوں پڑ گیا تھا؟ سائنسدانوں نے 200 سال پرانی گتھی سلجھا لی
سائنسدانوں کی ٹیم نے اس بات کا پتہ لگایا ہے کہ تقریباً 200 سال قبل سورج کا رنگ پراسرار طور پر نیلا کیوں ہوگیا تھا۔
ایک نئی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ سموشیر نامی دور دراز جزیرے پر آتش فشاں ایک بڑے پیمانے پر پھٹنے کا ذریعہ تھا جس نے پورے زمین کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ یہ جزیرہ اِس وقت روس اور جاپان کے درمیان کا متنازعہ علاقہ کہلاتا ہے۔
سائنسدانوں کی تحقیق کے مطابق سنہ 1831 میں ایک بہت بڑا آتش فشاں پھٹنے سے سلفر ڈائی آکسائیڈ کی بڑی مقدار ہوا میں پھیل گئی تھی، جس کی وجہ سے سورج نیلا نظر آنے لگا اور دنیا میں غیر معمولی سطح پر ٹھنڈ میں اضافہ ہوا تھا۔
خلا میں 140 کھرب سمندروں کے برابر تیرتا پانی مل گیا
اسکاٹ لینڈ میں سینٹ اینڈریوز یونیورسٹی کے محققین نے اپنی دریافت کی حمایت کے لیے آئس کور ریکارڈز کا مطالعہ کیا۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ 1831 کے پھٹنے کا کوئی عینی شاہد نہیں ہے کیونکہ ایسا ایک دور دراز، غیر آباد جزیرے پر ہوا تھا۔
شریک مصنف ول ہچیسن نے اس لمحے کو بیان کیا جب انہوں نے لیب میں راکھ کا تجزیہ کیا اور کہا کہ یہ ایک سنسنی خیز دریافت تھی جب انہوں نے آتش فشاں سے برف کے مرکز میں پائی جانے والی راکھ کو ملایا۔
خلا میں ٹریفک جام ہونے لگا، پریشان سائنس دانوں نے سر جوڑ لیے
ول ہچیسن نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے برف کی کیمسٹری کا باریک بینی سے جائزہ لیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ یہ دھماکہ کب ہوا تھا۔ انہوں نے پایا کہ سنہ 1831 کے موسم گرما میں آتش فشاں پھٹا تھا اور یہ انتہائی طاقتور تھا۔
سائنس دانوں نے خبردار کیا کہ اس بات کا امکان ہے اسی طرح کا ایک اور آتش فشاں دوبارہ پھٹ سکتا ہے جو نظام جو کرہ ارض پر زندگی کو درہم برہم کر سکتا ہے۔