کوئی ویکسین نہیں، چین میں پھیلا ’ایچ ایم پی وی‘ وائرس کیا ہے اور کتنا خطرناک ہے؟
چین کے سرکاری میڈیا کے مطابق چین میں کورونا کے 5 سال بعد کووڈ 19 جیسا نیا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے، جس کا نام ہیومن میٹا پینو وائرس (ایچ ایم پی وی) ہے، اس وائرس کا شکار زیادہ تر 14 سال اور اس سے کم عمر کے بچے ہیں تاہم اس کی درست شدت واضح نہیں ہے۔
چین کی سرکاری میڈیا کے مطابق نئے وائرس سے متاثرہ لوگوں میں نزلہ اور کورونا جیسی علامات کی شکایات پائی گئی ہیں۔
HMPV وائرس ہے کیا اور یہ انسانی زندگی کے لیے کتنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے؟
امریکہ کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی) کے مطابق ہیومن میٹا پینو وائرس (HMPV) کا تعلق وائرس کے اسی خاندان سے ہے جس کا تعلق ریسپائریٹری سنسیٹیئل وائرس (RSV) سے ہے، یہ ایک موسمی وائرس ہے جو نزلہ زکام اور پھیپھڑوں کے انفیکشن کا سبب بھی بنتا ہے۔ HMPV کو 2001 میں دریافت کیا گیا تھا۔
ہیومن میٹا پینو وائرس بنیادی طور پرایک سانس کا وائرس ہے، جس سے بچے ، بزرگ اور کمزور مدافعتی نظام والے افراد زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اس کی عام شکل زکام یا فلو کی علامات کی صورت میں ظاہر ہوتی ہےجیسے بخار ، کھانسی ، اور ناک بند ہونا، اس سے صحت کو سنگین خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ بالخصوص چھوٹے بچوں کے لئے سنگین تشویش کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ RSV کے ساتھ ساتھ موسمی انفلوئنزا یا ”فلو“ کا بھی سبب بنتا ہے۔
چین میں پھیلے نئے وائرس کی پاکستان میں موجودگی کا انکشاف
سی ڈی سی کے مطابق وائرس کی مدت کا دورانیہ تو تین سے چھ دن ہے لیکن بیماری کی مدت وائرس سے متاثر ہونے کی شدت کے لحاظ سے مختلف ہو سکتی ہے۔
تاحال اس وائرس سے بچاؤ کی کوئی ویکسین دستیاب نہیں ہے اور امریکا میں وائرس سے بچاو کے ادارے کا کہنا ہے کہ اس وائرس کے علاج کیلئے کوئی مخصوص طریقہ علاج دستیاب نہیں ہے تاہم HMPV کا علاج موجود ہے، جس میں مرض کی علامات کو کم کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان کے قومی ادارہ صحت (این آئی ایچ) کے ترجمان ڈاکٹر ممتاز کے مطابق اس وائرس کی علامات بھی نزلے اور زکام سے ملتی جلتی ہیں اور یہ وائرس پانچ سال سے کم عمر بچوں، حاملہ خواتین، ذیابطیس یا کینسر کے مریضوں کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔ یہ وائرس چھینک کی بوندوں، قریبی ذاتی رابطے، اور وائرس سے آلودہ علاقوں کو چھونے کے بعد منھ، ناک یا آنکھوں کو چھونے سے پھیلتا ہے۔
اگر بات کی جائے پاکستان کی تو قومی ادارہ صحت کے مطابق چین میں پھیلنے والا کورونا سے ملتا جلتا ہیومن میٹا پینو وائرس (ایچ ایم پی وی) پاکستان میں پہلے سے ہی موجود ہے جب کہ حکومت پاکستان چین میں تیزی سے پھیلنے والے اس وائرس پر کڑی نظر رکھی ہوئی ہے۔
قومی ادارہ صحت کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ ہیومن میٹا پینو وائرس گزشتہ دو دہائیوں سے پاکستان میں موجود ہے، یہ وائرس پہلی بار پاکستان میں 2001 میں ریکارڈ کیا گیا۔
این آئی ایچ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے ابھی تک ہیومن میٹا پینو وائرس کے حوالے سے کوئی ایڈوائزری جاری نہیں کی ہےاور نہ ہی چین کی جانب سے کوئی اپڈیٹ جاری کی گئی ہے۔
انہوں نےعوام کو مشورہ دیا ہے کہ سوشل میڈیا پر پھیلنے والی افواہوں پر کان نہ دھریں۔
اوور بلنگ کے ذمہ دار افسران کے خلاف سخت کارروائی کا امکان
اس سلسلے میں کی جانے والی احتیاطی تدابیر کے بارے میں ڈاکٹر فیصل نے عوام کو مشورہ دیا ہے کہ انہیں چاہیے کہ صابن اور پانی سے ہاتھوں کو اچھی طرح دھوئیں، اکثر چھوئی جانے والی سطحوں کو جراثیم سے پاک رکھیں، متاثرہ افراد کے ساتھ قریبی رابطے سے گریز کریں۔
ڈاکٹر فیصل کا مزید کہنا ہے کہ ہجوم والی جگہوں پر خاص طور پر ماسک پہننے سے کسی حد تک احتیاط کی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ متاثرہ شخص کو چاہیے کہ وہ ماسک لازما پہنے۔
نئی بیماریوں سے بچاؤ کے لیے دستیاب ویکسین کے بارے میں اپ ڈیٹ رہیں، صحت مند غذا، قوت مدافعت کو مضبوط بنانے کے لیے وٹامنز اور اینٹی آکسائیڈنٹس سے بھرپور غذائیں شامل کریں۔ نیند پوری لیں اور ہلکی پھلکی ورزش کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔