بھارت کی سب سے طاقتور کمپنی، جس کی اپنی فوج اور انٹیلی جنس تھی
اگر آج آپ سے پوچھا جائے کہ دنیا کی سب سے طاقتور کمپنی کون سی ہے؟ تو شاید آپ کا جواب ٹیسلا، مائیکروسافٹ، گوگل، ایپل یا میٹا ہوگا۔ لیکن ایک وقت تھا جب ایک کمپنی تھی جو نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کے کئی ممالک پر راج کرتی تھی۔
اس کمپنی کے پاس لاکھوں سپاہ کی فوج اور اپنی انٹیلی جنس تھی۔
یہ تھی ”ایسٹ انڈیا کمپنی“، جو 31 دسمبر 1600 کو برطانیہ میں ملکہ الزبتھ اول کے دور میں قائم ہوئی۔
یہ کمپنی تاریخ کی سب سے طاقتور اور منفرد کمپنیوں میں شمار ہوتی تھی۔
اس کو شروع میں ایشیا میں تجارت کے حقوق حاصل تھے، لیکن وقت کے ساتھ اس کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کے کئی ممالک پر حکمرانی کی۔
اس کمپنی کا قیام تجارتی مقاصد سے شروع ہوا ، لیکن جلد ہی اس نے سیاسی اور فوجی قوت حاصل کر لی۔
فوج اور انٹیلی جنس یونٹ
ایسٹ انڈیا کمپنی کے پاس 2.5 لاکھ سے زیادہ سپاہیوں کی ایک بڑی فوج تھی، جو اس وقت دنیا کی سب سے بڑی نجی فوج تھی۔ اور یہی نہیں بلکہ اس کا اپنا انٹیلی جنس نیٹ ورک بھی موجود تھا، جو کمپنی کی طاقت اور کنٹرول کو مزید مضبوط کرتا تھا۔
ہندوستان میں اس کمپنی نے مختلف ریاستوں کے حکمرانوں کو چت کردیا اور اپنے زیرِ اثر کر لیا۔ بہترین فوجی قوت اور انٹیلی جنس کے ذریعے اس کمپنی نے اپنی حکومت کو مضبوطی سے قائم رکھا اور کامیاب رہی۔
ہندوستان میں ممبئی، چنئی، اور کولکتہ جیسے بڑے شہروں کے قیام کا سہرا بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کو جاتا ہے۔ یہ شہر کمپنی کے تجارتی مراکز تھے اور برصغیر میں برطانوی اثر و رسوخ کو مضبوط کرتے تھے۔
کمپنی نے بندرگاہوں جیسے سنگاپور اور پینانگ پر بھی اپنا کنٹرول حاصل کیا اور اس کے عالمی تجارتی نیٹ ورک کا اہم حصہ بنیں۔
ٹیکس وصولی اور معاشی طاقت
ایسٹ انڈیا کمپنی کو ہندوستان میں ٹیکس وصول کرنے کا اختیار حاصل تھا، جو اسے نہ صرف تجارتی بلکہ سیاسی طاقت بھی دیتا تھا۔
ہندوستان میں کسانوں اور کاریگروں پر بھاری ٹیکس عائد کیے جاتے تھے، جس سے کمپنی نے بے پناہ دولت کمائی۔ اس دولت کو برطانیہ منتقل کیا گیا، جس نے برطانوی معیشت کو مضبوط کیا لیکن اس کا اثر یہ ہوا کہ ہندوستانی معیشت کمزور ہوگئی۔
کمپنی میں ملازمت حاصل کرنا ایک خواب سے کم نہ تھا جو کسی بھی شخص کی تمنا ہوتی، لیکن یہ اتنا آسان نہ تھا۔ اور پھر سفارش اور رشوت کا بازار گرم ہوا جس کے بغیر اس میں نوکری ملنا تقریباً ناممکن تھا۔
کمپنی کے ڈائریکٹرز کی منظوری کے بغیر کسی کو ملازمت نہیں ملتی تھی۔ اس وقت کمپنی میں کام کرنا نہ صرف مالی استحکام بلکہ اعلیٰ سماجی حیثیت کی علامت بھی سمجھا جاتا تھا۔
کمپنی کا زوال
اس کمپنی نے اپنی طاقت اور اثر و رسوخ سے کئی دہائیوں تک حکمرانی کی، لیکن وقت کے ساتھ اس کی بے جا مداخلت، بدعنوانی، اور ہندوستانی عوام کے خلاف زیادتیاں اس کے زوال کا سبب بنیں۔
1857 کی جنگِ آزادی کے بعد برطانوی حکومت نے کمپنی کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا، یعنی ایسٹ انڈیا کمپنی براہِ راست برطانوی حکومت کے کنٹرول میں آگئی اور ہندوستان کو تاجِ برطانیہ کا حصہ بنا دیا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی محض ایک تجارتی ادارہ نہیں تھی بلکہ ایک ایسی قوت تھی جس نے نہ صرف تجارت بلکہ سیاسی اور فوجی طاقت کو بھی استعمال کیا۔ اس کا اثر آج بھی تاریخ میں ایک سبق کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔
جب چیزیں شفاف نہ رہیں اور ذاتی مفاد کو اجتماعی مفاد پر ترجیح دی جائے، انصاف کی جگہ ظلم اور ذیادتی لے لے تو کمپنی ہی کیا مملکتیں تک رو بہ زوال ہوجاتی ہیں، اور یہ کمپنی انسانی تاریخ میں اس بات کی مثال ہے کہ طاقت ، لالچ، اور بدعنوانی کس طرح ایک معاشرے کو تبدیل کر سکتے ہیں۔