مسٹر اور مولانا کا فرق ختم ہونا چاہیے، مدارس کی رجسٹریشن میں مسائل ہیں، ڈائریکٹر مذہبی تعلیم کا اعتراف
ڈائریکٹر مذہبی تعلیم ڈاکٹر عاظم الدین زاہد لکھوی کا کہنا ہے کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں مدارس رجسٹریشن نہیں کروانا چاہتے، اس حوالے سے ہمیں کوئی وجہ بھی نہیں بتائی گئی۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم و تربیت کا اجلاس ڈاکٹر عاظم الدین زاہد لکھوی کی زیر صدارت ہوا، اجلاس کے دوران مدارس اصلاحات اور رجسٹریشن کا معاملہ زیر بحث آیا۔
ڈائریکٹر مذہبی تعلیم کی جانب سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ جیسے ہی ہم نے رجسٹریشن شروع کی تو مدارس نے رجسٹریشن سے انکار کر دیا، مسٹر اور مولانا کا فرق ختم ہونا چاہیے۔
ڈائریکٹر مذہبی تعلیم نے بتایا کہ ہمارا جن مدارس سے معاہدہ ہوا، انہوں نے بغیر کوئی وجہ بتائے رجسڑیشن سے انکار کر دیا، 598 مدارس میں ہم نے چیک لگایا ہے، مدارس کی رجسٹریشن کیلئے ہمیں بلوچستان اور کے پی کے میں سب سے زیادہ مسائل پیش آرہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے مدارس رجسٹریشن نہیں کروانا چاہتے، مدارس کے درس نظامی یا ان کے نصاب میں کوئی مداخلت نہیں کریں گے، ان مدارس کی رجسٹریشن ضروری تھی، آرڈنینس اگر پارلیمینٹ پاس کر دے تو ہمارے لیے رہنمائی ہوگی۔
ڈائریکٹر مذہبی تعلیم نے کہا کہ بیرون ممالک کے طلبہ بھی مدارس میں زیر تعلیم ہیں، انہیں بھی دیکھنا ہے تاکہ وہ ہمارے سفیر بنیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 1760 مدارس مختلف بورڈز سے الحاق کر چکے ہیں، 40 ہزار سے زائد مدارس ہیں، 18164 مدارس ملک بھر سے ڈائریکٹیوریٹ جنرل مذہبی تعلیم سے رجسٹر ہوچکے ہیں، 1608 بیرون ممالک کے طلبا مدارس میں تعلیم حاصل کرنے پاکستان میں آئے ہیں۔
کمیٹی کے رکن اسلم گھمن نے سوال اٹھایا کہ افغانستان کے طلبہ کتنے ہمارے مدارس میں زیر تعلیم ہیں؟ ڈائریکٹر مذہبی تعلیم نے کہا میرے پاس ایسا کوئی ڈیٹا ابھی موجود نہیں ہے۔