Aaj News

اتوار, جنوری 05, 2025  
04 Rajab 1446  

سکیورٹی خدشات اور وفاقی ایس او پیز روشن پختونخوا کی راہ میں رکاوٹ بن گئے

ایس او پیز سے مشروط چینی انجینئرز کی نقل و حرکت تاخیر کی وجہ بننے لگی
اپ ڈیٹ 02 جنوری 2025 04:07pm

ساٹھ ہزار میگا واٹ کے ہیڈل پوٹینشل رکھنے والے پاکستان کا تقریباً 50 فیصد حصہ خیبر پختونخوا میں ہے, جس سے واپڈا خیبر پختونخوا میں 65 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کر رہا ہے, جبکہ پختونخوا انرجی ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (پیڈو) 17 پروجیکٹس پر کام کر رہا ہے، جس کی کل کپیسٹی تقریبا ایک ہزار میگاواٹ ہے، جسمیں 161.8 میگا واٹ کے 7 پراجیکٹس آپریشنل ہیں جو نیشنل گرڈ کو بجلی دے رہے ہیں اور باقی زیر تعمیر ہیں جن میں 3 پروجیکٹس (63 میگاواٹ) اسی سال مکمل ہو جائیں گے۔

ڈیمانڈ اور جنریشن

سرکاری اعداد وشمار کے مطابق خیبر پختونخوا کی بجلی کی ڈیمانڈ 2700 میگا واٹ سے 280میگا واٹ تک ہے جبکہ صوبے کی جنریشن تقریباً 7000 میگا واٹ ہے جو واپڈا اور پیڈو مل کر جنریٹ کر رہے ہیں۔

سوات ہائیڈرو کا خزانہ

چیف انجینئر پختونخوا انرجی ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن (پیڈو) سید حبیب اللہ شاہ نے آج نیوز کو بتایا کہ سوات کوریڈور 1050 میگا واٹ کی صلاحیت رکھتا ہے، جس پر ٹوٹل 7 سے 8 پراجیکٹس بنیں گے، جن میں 4 پبلک سیکٹر کے ہیں اور باقی پرائیویٹ ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ 2019 سے چلنے والا درال خوڑ ہائیڈرو 36.6 میگا واٹ ضلع سوات کا پراجیکٹ ہے جو پہلے ہی سے صوبے کو ریوینیو اور نیشنل گرڈ کو بجلی دے رہا ہے، جبکہ گورکن مٹلتان ہائیڈرو پراجیکٹ 84 میگا واٹ پر 80 فیصد تک کام ہو چکا ہے اور یہ 2025 کے دسمبر تک مکمل ہو جائے گا۔ اسی طرح 88 میگا واٹ گبرال کالام اور 207 میگا واٹ مدین پراجیکٹ پر بھی کام ہو رہا ہے۔

ٹرانسمیشن لائن آف سوات کوریڈر کی اہمیت

سید حبیب اللہ شاہ نے بتایا کہ سسٹم کے ساتھ کنکٹ کرنے کے لئے ٹرانسمیشن لائن کا مسئلہ بہت اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ مدین سے چکدرہ تک موجودہ ٹرانسمیشن لائن میں وہ صلاحیت نہیں کہ یہ صوبے کی آنے والی ضرورت کو پورا کر سکے، اور اس کا حل ضرروی تھا اس لئے موجودہ حکومت کے ویژن کے مطابق تیزی کے ساتھ اس پر کام ہوا اور فیز ون مٹل تان سے مدین تک 40 کلومیٹر لائن پر کام شروع ہوچکا ہے، اس لائن کی افادیت یہ ہوگی کہ یہ 1050 میگا واٹ کے تمام پراجیکٹ کی بجلی کو ایکسپورٹ کرے گی۔

حبیب اللہ نے بتایا کہ اس کا تخمینہ 8 بلین روپے لگایا گیا ہے۔ دوسرے فیز میں پیکج ٹو کی لمبائی 80 کلومیٹر ہو جائے گی اور یہ پاور کو اٹھا کر مدین سے چکدرہ تک لے کر آئے گی۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت آنے والے سالوں میں چکدرہ کو ایک بڑا انڈسٹریل حب بنانا چاہتی ہے جس کو سستے داموں بجلی فراہم کی جائے اور اپنی لیبر کو اپنے ہی صوبے میں استعمال کر کے اپنے علاقے کو فائدہ دیا جائے گا۔

پختونخوا کو انرجی سیکٹر میں خود مختار بنانے کی کوششیں

انرجی سیکٹر میں کامیابی کے لئے 4 اہم جزو کا صوبے کے ہاتھ میں ہونا ضروری ہے۔ جنریٹر، ٹرانسمیٹر، ڈسٹری بیوٹر اور ریگولیٹر۔

خیبر پختونخوا میں جنریٹر کے طور پر پختونخوا انرجی ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن (پیڈو) کے زریعے بڑے پراجیکٹس پر کام ہو رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ 2030 تک کئی اہم سنگ میل عبور کر لئے جائیں گے۔

حبیب اللہ نے کہا کہ خیبرپختونخوا کی حکومت نے توانائی کے شعبے میں ایک اور انقلابی اقدام کے طور پر اپنی پاور ٹرانسمیشن لائن بچھانے کے لئے پیڈو اور نجی کمپنی نیٹراکون کے درمیان ایک معاہدہ کیا جس کے بعد پختونخوا اپنی پاور ٹرانسمیشن لائن بچھانے والا ملک کا پہلا صوبہ بن گیا۔

چیف انجئینر پیڈو سید حبیب اللہ شاہ نے آج نیوز کو بتایا کہ پہلے مرحلے میں مٹل تان سے مدین تک 40 کلو میٹر طویل 132/220 کے وی ٹرانسمیشن لائن بچھائی جائے گی۔ منصوبے پر 8 ارب روپے کی لاگت آئے گی اور ڈیڑھ سال میں یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچے گا، 84 میگا واٹ مٹلتان ہائیڈرو پاور پراجیکٹ سے بجلی نیشنل گرڈ یا صنعتوں کو فراہم ہوگی جبکہ سوات میں بھی پراجیکٹس سے بجلی ٹرانسمیشن لائن کے ذریعے نیشنل گرڈ اور صنعتوں کو فراہم کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ صوبے کو بجلی کے منصوبوں سے سالانہ تقریباً 60 ارب روپے کی آمدن ہوگی۔

انہوں نے بتایا کہ سوات کوریڈور ٹرانسمشن لائن منصوبے کے دوسرے مرحلے پر بھی کام ہو رہا ہے، جس کے تحت مدین سے چکدرہ تک 80 کلو میٹر طویل ٹرانسمیشن لائن بھی بچھائی جائے گی۔

سید حبیب اللہ شاہ نے بتایا کہ خیبر پختونخوا میں مقامی سطح پر پیدا کی جانے والی بجلی کو بیچنے کے لیے وفاق کی طرز پر صوبے میں الگ بجلی ریگولیٹری اتھارٹی بنانے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ خیبرپختونخوا میں بجلی ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کے لیے عملی اقدامات شروع کرنے کا اہم ٹاسک محکمہ توانائی و برقیات خیبر پختونخوا کو سونپ دیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پختونخوا انرجی ڈویپلمنٹ ارکنائزیشن ( پیڈو) کے زیرانتظام بجلی کے منصوبوں کو مین گرڈ کے ساتھ منسلک کرنے کے لیے تخمینہ لاگت کا اندازہ لگایا جائے تاکہ صوبائی حکومت اس ٹرانسمیشن لائن کو اپنے وسائل سے یا پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ تعاون سے مکمل کرے۔ صوبے میں جو نئے تعمیر کردہ بجلی گھروں سے بجلی پیدا ہو رہی ہے اسی کو ریگولیٹ کرنے کے لیے اتھارٹی بنانے کا فیصلہ ہوا ہے۔ جبکہ بجلی کے مزید منصوبے بن رہے ہیں جنہیں پرائیویٹ سیکٹر یا کسی ادارے کو دینے کے لیے ٹیرف کا تعین کرنا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ ریگولیٹر کا کام ہے کہ بجلی کی پیداوار کا ٹیرف طے کرے اور ٹرانسمیشن کے لیے چارجز مقرر کرنا ہے۔ صوبائی حکومت ضرورت کے مطابق بجلی استعمال کرکے باقی پرائیویٹ سیکٹر کو دے گی جبکہ ڈسٹریبیوشن کمپنی کے لئے بھی پلان زیر غور ہے۔

صوبے میں بجلی کے جاری منصوبے

سید حبیب اللہ شاہ نے بتایا کہ صوبے میں انرجی کے 10 پراجیکٹس انڈر کنسٹرکشن ہیں، ان دس کی صلاحیت 800 میگا واٹ ہوگی جن میں سے 62.8 میگا واٹ کے تین پراجیکٹس جو اسی سال مکمل ہو جائیں گے۔ باقی 7 میں سے ایک بڑے 300 میگا واٹ کے بالاکوٹ ہائیڈرو پراجیکٹ کام شروع ہے، جس کی تکمیل دسمبر 2028 تک ممکن ہونا ہے جس کے بعد مزید 300 میگا واٹ پختونخوا کے سسٹم میں چلا جائے گا جس کا ریوینیو 16بلین روپے سے زائد ہو گا۔

جنوبی اضلاع کو انرجی کی مد میں کیا ملے گا

جنوبی اضلاع میں سولر اور ونڈ انرجی پراجیکٹس کی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے ڈیرہ اسماعیل خان اور کوہاٹ میں 200 میگا واٹ کے پراجیکٹس کا پلان بنایا گیا، لیکن وفاق کی پالیسیوں کی وجہ سے مسائل کا شکار ہے۔ جبکہ جنوبی اضلاع کے 13.5 میگا واٹ کے واحد ہائیڈل پراجیکٹ چھپری چار خیل ہائیڈرو پاور کا مستقبل بھی صوبائی کابینہ میں زیر بحث ہے۔

دوسری طرف 76 میگا واٹ کے کوہاٹ میں ونڈ انرجی پراجیکٹ بھی زیر غور ہے۔

انرجی سیکٹر میں صوبے کو درپیش چیلینجز

سید حبیب اللہ شاہ نے بتایا کہ ہائیڈل پراجیکٹ اکثر بے یقینی کی کیفت سے دوچار رہتے ہیں، کیونکہ لینڈ ایکوزیشن سے تکمیل تک کئی ایک چیلنجز کا انھیں سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جو زمین الاٹ ہوتی ہے اس پر کبھی کبھی لوگ عدالت چلے جاتے ہیں اور سٹے لے لیتے ہیں، اب جب تک عدالت اجازت نہ دے آپ کام شروع نہیں کر سکتے۔

اسی طرح کے کچھ اور مسائل ہیں جن پر مقامی آبادی کو تحفظات ہوتے ہیں ان کو دور کرنے میں سالوں لگ جاتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ ورلڈ بینک کے تعاون سے بننے والے پاکستان کے لیے بڑے منصوبے مدین ہائیڈرو پاور پراجیکٹ اور اس کے ساتھ گبرال کالام میں بھی پیش آیا جس کے بارے میں سید حبیب اللہ شاہ نے بتایا کہ لوگوں کے ساتھ جرگہ ہو رہا ہے اور ان کو یہ یقین دہانی کراوئی جا رہی ہے کہ اس پراجیکٹ سے دریائے سوات خشک نہیں ہوگا، کیونکہ ماحولیاتی پالیسوں کے مطابق ہم انوائرنمنٹل فلو کو نہیں روک سکتے اور اس پراجیکٹ میں تو ورلڈ بنک انوالو ہے، اُس کی فنڈنگ ہے تو کیسے اس چیز کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی وہ ایسے کام کی اجازت دیں گے جو ماحول کے لئے نقصان دہ ہو۔ تاہم جرگوں کے زریعے مسئلے کا حل نکالا جا رہا ہے۔

دوسرا مسئلہ سکیورٹی کا بھی ہے اکثر پراجیکٹ میں فارن انجئیرز کام کرتے ہیں جن میں بیشتر چینی انجینئرز ہوتے ہیں جن کو موبلائزیشن کی اجازت نہیں ملتی۔2021-22 کے بعد سے چینی انجینئرز کے لئے پروٹوکول اور ایس او پیز بہت سخت ہو گئے ہیں اور صوبہ کے ہر پراجیکٹ میں اس ایشو کا سامنا ہے۔ شانگلا، کالام، دیر، چترال اور مانسہرہ ہر جگہ سکیورٹی ایشوز کی وجہ سے مسائل درپیش ہیں۔ 60 سے زائد سکیورٹی ایس او پیز کو فالو کرنے کے باوجود کچھ نہ کچھ ایشو بن جاتا ہے جس پر اجازت نہیں ملتی۔

انہوں نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ 2021 سے اب تک کروڑا ہائیڈرو پراجیکٹ میں دس سے 15 دفعہ ایک چینی انجینئر کو لے کر آئے لیکن پھر اسے واپس بھیجنا پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ 11.8 میگا واٹ کا پراجیکٹ جو 2021 میں 95 فیصد مکمل تھا لیکن تین سالوں میں دو پرسنٹ بھی پروگرس نہیں کر سکا، کیونکہ چینی انجینئرز کی موبلائزیشن اجازت نہیں مل رہی۔

ان کا کہنا تھا کہ سکیورٹی کے خطرات کے پیش نظر ترقی نظرانداز کرنا موزوں اور دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہوگا۔

چیف انجینئر کا کہنا تھا کہ انڈیکیٹو جنریشن کیپیسٹی ایکسپینشن پلان (IGCEP) بھی ایک الگ چیلنج ہے 2024-34 کے پلان میں خیبر پختونخوا کے کچھ پراجیکٹ نہیں ڈالے گئے حالانکہ ہمارے ان پراجیکٹس پر کام شروع ہے اور ورلڈ بنک کی فناسنگ بھی ہو چکی ہے اور اس کو پلان سے نکال دیا گیا۔ اس پر وفاق سے بات جاری ہے تاکہ ان پراجیکٹس کو دوبارہ شامل کیا جائے۔

چکدرہ انڈیسٹریل حب

صوبائی حکومت کے منصوبے کے مطابق چکدرہ انڈیسٹریل حب بنایا جائے گا جس کے لئے سستے داموں بجلی کی فراہمی ایک اہم ٹاسک ہے۔ اس مقصد کے لئے سوات کالام ایریا میں ایک ہزار 50 میگا واٹ کا پوٹینشل ہے، یہاں ٹوٹل 7 سے 8 پراجیکٹ بنتے ہیں، جن میں سے 4 پراجیکٹس پبلک سیکٹر کے ہیں باقی پرائیوٹ سیکٹر کے ہیں۔

KPK

Hydel Power Projects