حکومت کا مدارس رجسٹریشن بل سے متعلق صدارتی آرڈیننس لانے کا فیصلہ
وفاقی حکومت سے مدارس رجسٹریشن بل سے متعلق صدارتی آرڈیننس لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ صدارتی آرڈیننس کی تیاری کیلئے وزارت قانون کو ہدایت کردی گئی ہے۔
حکومتِ پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے درمیان مدارس کی رجسٹریشن سے متعلق بل پر معاملات طے پائے جانے اور حکومت کی جانب سے مولانا فضل الرحمان کے مطالبات تسلیم کئے جانے کے بعد حکومتی ذرائع نے بتایا تھا کہ مدارس کی رجسٹریشن سے متعلق صدرِ پاکستان ایک ترمیمی آرڈیننس جاری کریں گے یا پھر اس ضمن میں ترمیمی بل پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ جس کے تحت مدارس کو سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹریشن کرانے کی اجازت دی جا سکتی ہے اور جو مدارس وزارتِ تعلیم کے موجودہ نظام کے ساتھ منسلک رہنا چاہتے ہیں انہیں اسی آرڈیننس کے ذریعے قانونی کور بھی دیا جائے گا۔
اب ذرائع کے مطابق فیصلہ کیا گیا ہے کہ صدر مملکت آصف علی زرداری مدارس کی رجسٹریشن سے متعلق آرڈیننس جاری کریں گے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق وزارتِ تعلیم کے ساتھ منسلک مدارس کی رجسٹریشن کے لیے اس وقت کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ وزارتِ تعلیم کے ساتھ مدارس کو علما اور حکومت کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بعد وفاقی کابینہ کے ایک انتظامی فیصلے کی روشنی میں قائم ہونے والی مذہبی تعلیم کے متعلق ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے رجسٹر کیا جا رہا ہے۔
اس طرح نہ صرف وزارتِ تعلیم کے ساتھ منسلک مدارس کی رجسٹریشن کے عمل کو قانونی ڈھانچہ مل جائے گا بلکہ صدرِ پاکستان کی جانب سے مدارس رجسٹریشن بل پر اٹھائے گئے اعتراضات کو بھی صدارتی آرڈیننس کے ذریعے حل کرلیا جائے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آرڈیننس جاری کرنے کا فیصلہ وزیراعظم کی مولانا فضل الرحمان اور صدر آصف زرداری سے ملاقاتوں میں کیا گیا۔
ذرائع نے بتایا کہ مدارس کی رجسٹریشن سے متعلق آرڈیننس پر جمعیت علمائے اسلام سمیت دیگر اسٹیک ہولڈرز نے اتفاق کرلیا ہے۔
نئے آرڈیننس میں ڈائریکٹوریٹ جنرل مذہبی تعلیم اور سوسائٹی رجسٹریشن ترمیمی ایکٹ کے تحت مدارس کو قانونی تحفظ فراہم کیا جائے گا۔
مولانا فضل الرحمان رواں برس اکتوبر میں 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری میں اپنی پارٹی اراکین کے ووٹوں کی اہمیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مدارس کی رجسٹریشن کے لیے سوسائٹی ایکٹ میں ترمیم کے بل کی منظوری کی شرط منوانے میں کامیاب ہوئے تھے۔
مدارس رجسٹریشن سے متعلق بل 20 اکتوبر کو سینیٹ سے منظور ہوا اور اگلے ہی روز 21 اکتوبر کو قومی اسمبلی نے اس کی منظوری دی تھی جس کے بعد اسی روز اسے دستخط کے لیے صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کو بھجوا دیاگیا تھا۔
تاہم صدر پاکستان نے تاحال اس بل پر دستخط نہیں کیے جس کی وجہ سے مدارس کی رجسٹریشن کا بل قانون کی صورت اختیار نہیں کر پایا ہے۔
صدرِ پاکستان نے بل پراعتراض اٹھایا ہے کہ 18ویں ترمیم کے بعد تعلیم صوبائی معاملہ ہے اس لیے پارلیمان صرف اسلام آباد کی حد تک اس طرح کی قانون سازی کرسکتا ہے۔
صدر نے اس بل سے فرقہ واریت اور دیگر تفرقہ انگیز رجحانات کے خدشے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لیے ایف اے ٹی ایف، جی ایس پی پلس اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی جانب سے اعتراض اٹھانے کا بھی امکان ظاہر کیا تھا۔
مولانا فضل الرحمان مدارس رجسٹریشن بل کا گزٹ نوٹی فکیشن جاری نہ کرنے کی صورت میں متعدد بار اسلام آباد کی جانب مارچ کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ 17 دسمبر کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران انہوں نے دھمکی دی تھی کہ مدارس بل میں کوئی ترمیم قبول نہیں کی جائے گی اور اگر بات نہ مانی گئی تو فیصلہ ایوان کے بجائے میدان میں ہوگا۔
یاد رہے کہ مدارس کے 15 مجموعی بورڈز میں سے پانچ بورڈز مولانا فضل الرحمان کے ساتھ ہیں جو رجسٹریشن سوسائٹی ایکٹ کے تحت کرنے کے حق میں ہیں۔ البتہ 10 مدارس بورڈز مذکورہ بل کی مخالفت کرتے ہیں اور ان کا مؤقف ہے کہ وہ وزارتِ تعلیم کے موجودہ نظام کے ساتھ ہی منسلک رہنا چاہتے ہیں۔