پاکستانی ’ویگو ڈالوں‘ کا خوف یورپ تک پہنچ گیا، بین الاقوامی میڈیا خصوصی رپورٹ شائع کرنے پر مجبور
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے ٹریفک میں جہاں دیگر کاریں بمپر ٹو بمپر، ایک انچ آگے بڑھتی ہیں۔ وہیں ٹویوٹا کے ہائلکس پک اپ ٹرک المعروف ”ویگو ڈالے“ بغیر کسی رکاوٹ کے اس جام کو چیرتے ہوئے نکل جاتے ہیں۔
پاکستان کے اہم طبقاتی تقسیم سے نشان زد معاشرے میں ہائلکس (ویگو ڈالے) طاقت، خوشحالی اور خوف کی علامت بن گئے ہیں۔ اور اس کا اثر پاکستان سے باہر بھی دکھائی دے رہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ فرانس کی خبر رساں ایجنسی ”اے ایف پی“ نے اس پر اپنی خصوصی رپورٹ شائع کی ہے۔
اے ایف پی نے چالیس سالہ سیاست دان عثمان پرہیار کے حوالے سے بتایا کہ ’گاڑی کی ایک چھاپ بنی ہوئی ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ جو بھی اس میں جا رہا ہے وہ کوئی اہم شخصیت ہے‘۔
عثمان کا کہنا ہے کہ ’اس میں سب کچھ ہے – دکھاوا، اضافی سیکیورٹی اور کھلا کارگو بیڈ، جس پر کئی لوگوں کے بیٹھنے کے لیے کافی جگہ ہے۔‘
کراچی کی افراتفری سے بھری سڑکوں پر کاروں کے پیچھے تیز رفتاری سے دوڑتی اور لائٹس چمکاتے ہوئے ڈرائیوروں کو راستے سے ہٹنے کا کہتے ہوئے یہ ہائلکس ٹریفک کی پرواہ نہیں کرتیں۔
اے ایف پی کے مطابق ”ہائلکس“ (Hilux) ٹرک سب سے پہلے دیہی اور پہاڑی علاقوں میں اپنی قابل اعتمادی کی وجہ سے جاگیردار اشرافیہ میں مقبول ہوا۔
لیکن حالیہ برسوں میں مقامی طور پر یہ ”ڈالے“ کے نام سے مشہور ہوا اور اب نئے نئے امیر ہوئے لوگوں اور شہری کاروباری مالکان کے درمیان ایک ایسکارٹ وہیکل کے طور پر مقبول ہورہا ہے۔
2021 میں اسلام آباد کی سڑکوں پر رات بھر وی 8 اور کروزر کیوں گھوم رہیں تھیں؟
اسکارف میں لپٹے چہرے اور AK-47 سے مسلح گارڈز کو ٹرک کے پچھلے حصے میں لادا جاتا ہے اور کھڑکیوں کے شیشے سیاہ کردئے جاتے ہیں۔
کراچی میں مقیم ایک کار ڈیلر فہد نذیر نے اے ایف پی سے گفتگو میں کہا کہ، ’یہ ایک سٹیٹس سمبل ہے۔ لوگوں کے پیچھے ایک یا دو پک اپ ہوتے ہیں۔‘
سیاست میں استعمال
ہائلکس نے 1968 میں ڈیبیو کیا، لیکن پاکستان میں جو ماڈل مقبول ہوا وہ 2000 کی دہائی کے وسط میں ”Hilux Vigo“ تھا۔
بعد میں اسے اپ گریڈ کیا گیا اور ریوو کے نام سے دوبارہ برانڈ کیا گیا، جس کی قیمتیں 10 سے 15 ملین روپے تھیں۔
ان کی قیمتیں مستحکم رہیں اور اب یہ روایتی طور پر ان کے مینوفیکچرر ٹویوٹا کے زیر تسلط مارکیٹ میں بہترین ری سیل ویلیو برقرار رکھتے ہیں۔
کار بیچنے والے نذیر نے اے ایف پی کو بتایا، ’ہمارے پاس جو بھی لگژری آئٹمز ہیں، ان میں یہ سب سے تیزی سے فروخت ہونے والی چیز ہے۔‘
ڈیلرز کا کہنا ہے کہ فروری کے قومی انتخابات کے دوران اس کے کرایوں میں اضافہ ہوا تھا۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے صوبائی رکن اسمبلی سجاد علی سومرو نے اے ایف پی سے گفتگو میں کہا، ’میں خدا کی قسم کھاتا ہوں، آپ ریوو کے بغیر الیکشن نہیں لڑ سکتے‘۔
مشرقی شہر گجرات میں، حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے سیاست دان علی وڑائچ کے نزدیک دو ٹرکوں کے ساتھ سفر کرنا ضروری ہے۔
یہ ٹرک انہیں ایک ماہ میں درجنوں شادیوں اور جنازوں میں شرکت کے لیے خراب سڑک والے علاقوں میں سفر کی اجازت دیتے ہیں۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس گاڑی کے بغیر سیاست تقریباً ناممکن ہو گئی ہے۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ اگر آپ کے پاس ڈالا نہیں تو ممکنہ حامی آپ کے اثر و رسوخ پر سوال اٹھا سکتے ہیں اور حریفوں کی طرف رخ کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسی وجہ سے یہ ایک بنیادی ضرورت بن گئی ہے۔
بچ نکلنا
سماجی کارکنوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ ٹرک اختلافی آوازوں کے ”اغوا“ میں بھی ایک ٹریڈ مارک بن گیا ہے۔
اے ایف پی کے مطابق حالیہ کریک ڈاؤن میں پی ٹی آئی کے سینئر رہنماؤں اور عہدیداروں کی گرفتاری کے لیے حکام کی جانب سے سادہ کپڑوں میں ملبوس غیر نشان زد گاڑیوں کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا، جس سے اس گاڑی کی بدنامی کو تقویت ملی۔
اس سال کے شروع میں اٹھائے گئے پی ٹی آئی کے ایک رکن نے اے اہف پی سے گفتگو میں کہا، ’جب بھی میں اس گاڑی کو سڑک پر دیکھتا ہوں، میں اسی صدمے سے گزرتا ہوں جو میں نے اپنی حراست کے دوران برداشت کیا تھا‘۔
اے ایف پی کے مطابق عمران خان کو جب مئی 2023 میں دارالحکومت اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا تھا تو نیم فوجی دستے انہیں کالے ڈالے میں ہی لے کر گئے تھے۔
بعد میں انہوں نے سیاسی ہیوی ویٹ اور تین بار وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف پر ”ویگو ڈالا کے ذریعے“ الیکشن جیتنے کی کوشش کرنے کا الزام لگایا۔
پاکستانی شاعر اور کارکن احمد فرہاد جو سیاست میں فوج کی مداخلت پر تنقید کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں، انہیں مئی میں ان کے گھر پر چھاپے کے بعد ایک ہائلکس میں ہی لے جایا گیا تھا۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، ’بعض اوقات، وہ ان گاڑیوں کو میری گاڑی کے ارد گرد یا پیچھے پارک کرتے ہیں، جس سے یہ واضح پیغام جاتا ہے کہ ”ہم آس پاس ہیں“۔
اسٹریٹ کرائمز سے بھرے شہر کراچی میں ڈالا ڈکیتوں سے بھی بچاتا ہے۔
گاڑیوں کے شوقین 35 سالہ زوہیب خان کہتے ہیں کہ ’ایک عام موبائل چھیننے والا ڈالے کے مقابلے میں ایک کار کو لوٹنے کا انتخاب کرے گا۔‘
بڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائم کی وجہ سے پولیس کی طرف سے حفاظتی چیکنگ بڑھا دی گئی ہے، جس سے شہر بھر میں نقل و حرکت میں مزید کمی آئی ہے۔ لیکن اس سے ڈالوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
زوہیب خان کہتے ہیں کہ پولیس ’عام طور پر مجھے نہیں روکتی کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ میں کوئی ایسا شخص ہوں جو ان پر برا اثر ڈال سکتا ہے یا کسی نہ کسی طریقے سے انہیں نقصان پہنچا سکتا ہے‘۔