جائیداد گاڑی خریدنے پر پابندی، ٹیکس نظام سے متعلق تجویز سے کونسا طبقہ متاثر ہوگا؟
حکومت پاکستان کی طرف سے ملک کے ٹیکس سسٹم میں ترامیم سے متعلق نئی ترامیم تجویز کی گئی ہیں جس کے تحت ٹیکس ادا نہ کرنے والے اور ریٹرن فائل نہ کرنے والے افراد کیخلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
رپورٹ کے مطابق وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے رواں ہفتے بروز بدھ قومی اسمبلی میں ٹیکس قوانین ترمیمی بل پیش کیا جس کے تحت ٹیکس ادا نہ کرنیوالے افراد اور ٹیکس ریٹرن جمع نہ کرانے والے افراد کے خلاف مختلف اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔
حکومت نے پیش کیے جانے والے بل میں فائلرز اور نان فائلرز کی بجائے اہل اور نااہل افراد کی کیٹیگری متعارف کرانے کی تجویز پیش کی۔
حکام کے مطابق وفاقی وزیر خزانہ کی جانب سے پیش کیا جانے والا بل ستمبر 2024 میں ٹیکس جمع کرانے والے ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے اعلان کردہ پالسی کا تسلسل ہے جس کے تحت ملکی ٹیکس قوانین سے نان فائلرز کی کیٹیگری ختم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس کے تحت نان فائلرز افراد کو ’ٹیکس نادہندگان‘ تصور کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔
ایف بی آر کے سربراہ کی جانب سے کہا گیا تھا کہ نئی پالیسی کے تحت نان فائلرز پر مختلف پابندیاں عائد کی جائیں گی۔
وفاقی حکومت نان فائلرز کے گرد شکنجہ سخت کرنے کے لئے تیار
حکومت کی اس پابندی سے کونسا طبقہ متاثر ہوگا؟
ٹیکس ماہرین کے مطابق نئی ٹیکس تجاویز کو پرکھا جائے تو دیکھنے میں تجاویز مثبت نظر آتی ہیں جن کا مقصد ایسے افراد کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہے جن کی آمدن پر ٹیکس بنتا ہے تاہم وہ حکومتی خزانے میں ٹیکس جمع نہیں کراتے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ یہ تجاویز معاشرے کے مختلف طبقات کو متاثر بھی کریں گی۔
کراچی ٹیکس بار ایسوسی ایشن کے صدر علی اے رحیم نے کہا کہ آبادی کے مختلف طبقات پر اس کا اثر ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر زرعی شعبے کو لے لیں تو اس میں فصل کی کٹائی کے بعد زمیندار طبقہ گاڑیوں کی خریداری کرتا ہے تاہم یہ طبقہ ٹیکس نیٹ میں نہیں ہے اس لیے اگر حکومت کی تجویز کردہ ترامیم منظور ہو جاتی ہیں تو اس کا اثر لازمی طور پر اس طبقے پر پڑے گا۔’
ایف بی آر کا نیا epayment 2.0 سسٹم کیسے کام کرے گا؟
علی اے رحیم کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں عمومی طور پر ایک اوسط خاندان کا ایک فرد ہی کماتا ہے اور باقی اس پر انحصار کرتے ہیں اس لیے جب یہ تجاویز منظور ہو کر نافد ہوں گی تو اس سے عام آدمی کی مشکلات بڑھیں گی۔ انھوں نے اگر کسی مرد یا عورت نے اپنے بچوں کے لیے بینک میں پیسے رکھے ہوئے ہیں جو ان کی تعلیم یا شادی پر خرچ ہوں گے لیکن اگر وہ نان فائلر ہیں تو اس کا مطلب ہے وہ یہ پیسے نہیں نکال سکیں گے۔
ٹیکس امور کے ماہر ذیشان مرچنٹ نے اس سلسلے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ان تجاویز کا مقصد تو یہ ہے کہ جن لوگوں کی اتنی آمدنی ہے کہ وہ ٹیکس ادا کرسکتے ہیں لیکن وہ ادا نہیں کر رہے تو ان سے ٹیکس لیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ تجاویز مثبت تجاویز ہیں جن کا مقصد ٹیکس دینے کے قابل افراد کو ٹیکس نیٹ ورک کے دائرے میں لانا ہے۔
ذیشان کا کہنا ہے کہ زرعی شعبے کے منسلک افراد کے علاوہ ریٹیلرز، ہول سیلرز اور ڈسٹری بیوٹرز اس کی زد میں آئیں گے کیونکہ ان طبقات پر اگر اکاونٹ کھولنے یا اس سے پیسے نکلوانے پر پابندی ہو گی تو یقینی طور یہ چیز ان کے لیے پریشانی کا سبب ہو گی۔
انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں یہ شعبے ٹیکس نیٹ میں نہیں ہیں اس لیے اگر یہ پابندیاں قانون بن جاتی ہیں تو مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد ان سے متاثر ہوں گے۔ لوگوں کو ابتدائی طور پر پریشانی ہو گی تاہم اس کے فوائد بھی ہوں گے جو ٹیکس نیٹ میں نہ ہونے کی صورت میں انھیں نہیں مل پائیں گے۔