شام کے عقوبت خانوں میں انسانیت سوز مطالم ڈھائے جاتے رہا، عالمی نشریاتی ادارے کی تصدیق
ظالم و جابر حکومتیں دنیا بھر میں تشکیل پاتی اور بکھرتی رہی ہیں۔ ایسی حکومتیں صرف طاقت اور ظلم کے ذریعے چلتی ہیں۔ عوام کو جیسے ہی موقع ملتا ہے اِنہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکتے ہیں۔ شام میں بھی چند روز قبل کچھ ایسا ہی ہوا۔ مزاحمت کرنے والے کامیاب ہوئے اور بشارالاسد کی جابرانہ حکومت کو چلتا کیا۔
شام کے طول و عرض میں موجود عقوبت خانوں کی خبریں کئی دن سے گردش میں ہیں۔ شام کے خفیہ ادارے اِن عقوبت خانوں میں حکومت کے مخالفین اور منحرفین کو مقید رکھتے تھے اور اُن پر انسانیت سوز مظالم ڈھاتے تھے۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی عربی نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ شام کے عقوبت خانے بھی ویسے ہی نکلے جیسے کہ دنیا بھر میں اس نوعیت کی حکومت کے ماتحت ہوا کرتے ہیں۔
بشار دور میں قائم کیے گئے خفیہ اداروں کے تہہ خانوں میں دو گز لمبے اور ایک گز چوڑے سیل (کوٹھریاں) ملے جن میں حکومت کے مخالفین کو مقید رکھا جاتا تھا۔
پہلے حافظ الاسد نے 30 سال اور اُن کے بعد بشارالاسد نے 24 سال تک شام پر بلا شرکتِ غیرے حکومت کی اور اقتدار کو زیادہ سے زیادہ مستحکم کرنے کے لیے طاقت کے بھرپور استعمال پر یقین رکھا۔ جبر و تشدد کے ذریعے لاکھوں افراد کی زندگی اجیرن بنائی گئی۔
تہہ خانوں میں عقوبت خانے بہت مضبوط بنائے گئے۔ قیدیوں کو اندھیرے میں رکھا جاتا تھا۔ انہیں کھانے پینے کو بھی بہت کم ملتا تھا اور بے پناہ تشدد کیا جاتا تھا۔ یہ سب عشروں تک ہوتا رہا۔
تہہ خانوں میں بنے ہوئے عقوبت خانوں میں لوگوں کو عارضی طور پر رکھا جاتا تھا جبکہ طویل عرصے کے لیے قید رکھنے کی خاطر انہیں دمشق کے نواح میں واقع صیدیانا جیل منتقل کیا جاتا تھا۔
2011 سے اب تک ان عقوبت خانوں میں 15 ہزار سے زائد ہلاکتیں واقع ہوئیں۔ اگست 2024 تک ایک لاکھ 30 ہزار افراد کو مقید رکھا گیا تھا۔ ایمنیسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ حافظ الاسد اور بشارالاسد کی حکومت نے مخالفین کو کچلنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ انہیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا اور موت کے گھاٹ بھی اتارا گیا۔
باپ بیٹے کے ادوارِ حکومت کے دوران عام شہریوں پر بھی گہری نظر رکھنے کا اہتمام کیا گیا تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ دہشت زدہ رہیں۔ یہ دونوں حکومتیں اِسی طور زندہ رکھی جاسکتی تھیں۔ عقوبت خانوں میں غیر معمولی پیمانے پر ریکارڈ موجود ہے۔ یہاں سے جو اہلکار نکل بھاگے اُنہیں ریکارڈ تلف کرنے کا موقع ہی نہیں مل سکا۔ اس ریکارڈ کی مدد سے انہیں آسانی سے شناخت کیا جاسکتا ہے جو ان عقوبت خانوں میں تعینات تھے اور حکومت کے مخالفین پر انسانیت سوز مظالم ڈھاتے تھے۔
Comments are closed on this story.